معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1798
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «المُتَبَايِعَانِ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالخِيَارِ عَلَى صَاحِبِهِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، إِلَّا بَيْعَ الخِيَارِ» (رواه البخارى ومسلم)
خرید و فروخت کا معاملہ فسخ کرنے کا اختیار
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: معاملہ بیع کے دونوں فریقوں کو (فسخ کرنے کا) اختیار ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں، سوائے خیار شرط والی بیع کے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
خرید و فروخت کے معاملہ میں اگر دونوں فریق (بیچنے والا اور خریدنے والا) یا دونوں میں سے کوئی ایک یہ شرط کر لے کہ ایک دن یا دو تین دن تک مجھے اختیار ہو گا کہ میں چاہوں تو اس معاملہ کو فسخ کر دوں تو شرعاً جائز ہے۔ اور شرط کرنے والے فریق کو فسخ کر دینے کا اختیار ہو گا۔ فقہ کی اور شریعت کی اصطلاح میں اس کو "خیار شرط" کہا جاتا ہے، اس کا ھدیث میں صراحۃً ذکر ہے اور اس پر فقہا کا اتفاق ہے۔ امام شافعیؒ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک اس طرح کی شرط اور قرارداد کے بغیر بھی فریقین کو معاملہ فسخ کرنے کا اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ دونوں اسی جگہ رہیں جہاں سودا طے ہوا ہے۔ لیکن اگر کوئی ایک بھی اس جگہ سے ہٹ جائے اور علیحدہ ہو جائے تو یہ اختیار ختم ہو جائے گا۔ اس کو فقہ کی زبان میں "خیار مجلس" کہا جاتا ہے، امام ابو حنیفہؒ اور بعض دوسرے ائمہ اس "خیار مجلس" کے قائل نہیں ہیں۔ اس بارے میں ان کا مسلک یہ ہے کہ خرید و فروخت کی بات جب فریقین کی طرف سے بالکل طے ہو گئی اور سودا پکا ہو گیا اور لین دین بھی ہو گیا تو اگر پہلے سے کسی فریق نے بھی فسخ کے اختیار کی شرط نہیں لگائی ہے تو اب کوئی فریق بھی یک طرفہ طور پر معاملہ فسخ نہیں کر سکتا، ہاں باہمی رجامندی سے معاملہ فسخ کیا جا سکتا ہے جس کو شریعت کی اور فقہ کی زبان میں "اقالہ" کہا جاتا ہے۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ اگر کسی فریق کی طرف سے بھی فسخ کرنے کے اختیار کی شرط نہیں لگائی گئی ہے تو معاملہ فسخ کرنے کا اختیار صرف اس وقت تک ہے جب تک دونوں فریق جدا نہ ہوں۔ امام شافعیؒ اور ان کے ہم خیال ائمہ نے اس حدیث کے لفظ "مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا" سے خیار مجلس سمجھا ہے۔ اور امام ابو حنیفہؒ وغیرہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک بات بالکل ختم اور طے نہ ہو جائے اس وقت تک ہر فریق کو اختیار ہے کہ وہ اپنی پیش کش واپس لے لے، اس کے بعد کسی کو فسخ کرنے کا اختیار نہ رہے گا۔ وہ "تفرق" سے مکانی علیحدگی نہیں بلکہ معاملاتی اور قولی علیحدگی و جدائی مراد لیتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں یہی لفظ اس معنی میں آیت " وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ" میں طلاق کے سلسلہ میں استعمال کیا گیا ہے۔
Top