معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1794
عَنْ أَنَسِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا، وَقَالَ: «مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الحِلْسَ وَالقَدَحَ»، فَقَالَ رَجُلٌ: أَخَذْتُهُمَا بِدِرْهَمٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ، مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ؟»، فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ: فَبَاعَهُمَا مِنْهُ. (رواه الترمذى وابوداؤد وابن ماجه)
نیلام کے طریقہ پر خرید و فروخت
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (بچھانے کا) ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ اس طرح فروخت کیا کہ آپ نے (مجلس کے حاضرین کومخاطب کر کے) فرمایا کہ یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدنا چاہتا ہے (وہ بولی بولے) ایک شخص نے عرض کیا کہ میں یہ دونوں چیزیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں ..... آپ ﷺ نے فریاما کون ایک درہم سے زیادہ دینے کو تیار ہے؟ تو ایک دوسرے صاحب نے آپ کو دو درہم پیش کر دئیے تو آپ نے وہ دونوں چیزیں اُنکے ہاتھ بیچ دیں۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیلام کے طریقہ پر خرید و فروخت جائز ہے اور خود آنحضرتﷺ نے ایسا کیا ہے۔ نیلام کے جس واقعہ کا حضرت انس ؓ کی اس حدیث میں ذکر ہے وہ پوری تفصیل کے ساتھ سننن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ کی روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ..... کہ ایک نہایت مفلس اور مفلوک الحال انصاری صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی حاجت مندی کا حال بیان کیا اور آپ ﷺ سے امداد و اعانت کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے (یہ دیکھ کر کہ وہ محنت کر کے کمانے کے قابل ہیں) ان سے پوچھا کہ تمہارے گھر میں کچھ سامان ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ کچھ بھی نہیں ہے، بس ایک ٹاٹ ہے جس کا کچھ حصہ ہم (بطور فرش کے) بچھا لیتے ہیں اور کچھ حصہ اوڑھ لیتے ہیں اور اس کے علاوہ بس ایک پیالہ ہے جو پانی پینے کے کام آتا ہے۔ آپ ﷺ نے فریاما کہ یہ دونوں چیزیں لے آؤ، وہ لے آئے، آپ ﷺ نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں بکتی ہیں، آپ لوگوں میں سے کون ان کا خریدار ہے۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت میں ایک درہم میں دونوں چیزیں لے سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فریاما " من يزيد " (یعنی جو کوئی اس سے زیادہ قیمت میں خریدنے والا ہو، وہ بولے!) ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ یہ بات آپ ﷺ نے ۲، ۳ دفعہ فرمائی تو ایک صاحب نے دو درہم نکال کر حضور ﷺ کو پیش کر دئیے تو آپ ﷺ نے دونوں چیزیں ان کو دے دیں۔ اور جو دو درہم انہوں نے دئیے تھے وہ آپ ﷺ نے ان انصاری صحابی کو دئیے اور فرمایا کہ ان میں سے ایک درہم کا تو کھانے پینے کا کچھ سامان خرید کے اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خرید کے میرے پاس لے آؤ، انہوں نے ایسا ہی کیا اور کلہاڑی خرید کے حضور ﷺ کی خدمت میں لے آئے، آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے اس میں لکڑی کا دستہ لگایا اور ان سے کہا کہ یہ کلہاڑی لے کے جنگل نکل جاؤ، لکڑیاں لاؤ اور بیچو! حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ان کو یہ بھی تاکید فرمائی کہ اب ۱۵ دن تک ہرگز میرے پاس نہ آؤ (یعنی زیادہ وقت محنت اور کمائی ہی میں صرف کرو) انہوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ اس محنت اور کمائی کے نتیجہ میں ان کے پاس دس درہم جمع ہو گئے اس سے انہوں نے گھر والوں کے لئے غذائی سامان اور کچھ کپڑا وغیرہ خریدا اس کے بعد حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ یہ محنت کر کے گزارا کرنا تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ سائل بن کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاؤ اور قیامت میں تمہارے چہرے پر اس کا داغ اور نشان ہو۔ اس حدیث میں امت کے لئے کتنی عظیم رہنمائی ہے، کاش ہم اس سے سبق لیتے۔
Top