معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1793
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لاَ تَلَقَّوُا الرُّكْبَانَ، وَلاَ يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلاَ تَنَاجَشُوا، وَلاَ يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلاَ تُصَرُّوا الْاِبِلَ وَالغَنَمَ، فَمَنِ ابْتَاعَهَا بَعْدَ ذَالِكَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ بَعْدَ أَنْ يَحْتَلِبَهَا، إِنْ رَضِيَهَا أَمْسَكَهَا، وَإِنْ سَخِطَهَا رَدَّهَا وَصَاعًا مِنْ تَمْرٍ» (رواه البخارى ومسلم)
بیچنے والے یا خریدنے والے کی ناواقفی سے ناجائز فائدہ اُٹھانے اور ہر طرح کے دھوکے فریب کی ممانعت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: غلہ وغیرہ لانے والے قافلہ والوں سے مال خریدنے کے لئے آگے جا کے نہ ملو، اور تم میں سے کوئی اپنے دوسرے بھائی کے بیع کے معاملہ میں اپنے معاملہ بیع سے مداخلت نہ کرے اور (کسی سودے کے نمائشی خریدار بن کر اس کی قیمت بڑھانے کا کام نہ کرو، اور شہری تاجر بدویون کا مال اپنے پاس رکھ کر بیچنے کا کام نہ کریں۔ اور (بیچنے کے لئے) اونٹنی یا بکری کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو۔ اگر کسی نے ایسی اونٹنی یا بکری خریدی تو اس کا دودھ دوہنے کے بعد اس کو اختیار ہے اگر پسند ہو تو اپنے پاس رکھے اور اگر ناپسند ہو تو واپس کر دے اور (جانور کے مالک کو) ایک صاع (قریباً ۴ سیر) کھجوریں بھی دے دے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں تجارت اور خرید و فروخت سے متعلق چند ہدایتیں دی گئی ہیں پہلی ہدایت تو وہی ہے جو اس سے اوپر والی حدیث میں دی گئی تھی، کہ غلہ وغیرہ ضروریات باہر سے لانے والے تجارتی قافلوں سے بازار اور منڈی میں ان کے پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں جا کر ان سے مال نہ خریدا جائے بلکہ جب وہ بازار اور منڈی میں مال لے آئیں تو ان سے خرید و فروخت کا معاملہ کیا جائے۔ اس ہدایت کی حکمت اور مصلحت بھی لکھی جا چکی ہے۔ دوسری ہدایت کے الفاظ یہ ہیں " وَلاَ يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ" اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی خریدار ایک دکاندار سے کوئی چیز خرید رہا ہے تو دوسرے دکاندار کو نہ چاہئے کہ وہ معاملہ میں مداخلت کرے اور خریدار سے کہے کہ یہی چیز تم مجھ سے خرید لو، ظاہر ہے کہ اس سے دکانداروں میں باہم عداوت اور ایک دوسرے کی بدخواہی پیدا ہو گی جو شر و فساد کی جڑ ہے۔ تیسری ہدایت کے الفاظ ہیں "وَلاَ تَنَاجَشُوا" بازار کی دنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی دکاندار سے کوئی چیز خریدنے کی بات چیت کر رہا ہے تو کوئی صاحب اسی چیز کے صرف نمائشی خریدار بن کے کھڑے ہو گئے اور زیادہ قیمت لگا دی تا کہ جو اصلی اور واقعی خریدار ہے وہ زیادہ قیمت دینے پر آمادہ ہو جائے، ظاہر ہے کہ بےچارے خریدار کے ساتھ یہ ایک طرح کا فریب ہے "لاَ تَنَاجَشُوا" میں اسی کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ چوتھی ہدایت کے الفاظ ہیں "لاَ يَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ" اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر کے تاجروں کو چاہئے کہ دیہات کے لوگ جو سامان غلہ وغیرہ فروخت کرنے کے لئے لائیں تو ان کا وہ مال اپنے پاس اس غرض سے نہ رکھیں کہ جب دام زیادہ اُٹھیں گے اس وقت فروخت کریں گے، بلکہ دیہات کے لوگ جب مال لائیں تو اس کو فروخت ہو جانا چاہئے۔ اس صورت میں ان اشیاء کی قلت نہیں ہو گی، عوام کے لئے قیمتیں نہیں چڑھیں گی اور گرانی نہیں بڑھے گی۔ اور دیہات سے مال لانے والوں کو جب کہ دن کے دن اور ہاتھ کے ہاتھ اپنے مال کی قیمت مل جائے گی تو جلد ہی وہ بازار میں دوسرا مال لا سکیں گے اس طرح ان کی تجارت بڑھ جائے گی اور نفع بھی بڑھے گا۔ پانچویں اور آخری ہدایت ہے "لاَ تُصَرُّوا الْاِبِلَ وَالغَنَمَ الخ" اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا نہ کرے کہ جب اس کو اپنا دودھ دینے والا جانور (اونٹنی، بکری وغیرہ بیچنا ہو تو ایک دو وقت پہلے سے اس کا دودھ دوہنا چھوڑ دے تا کہ خریدار اس کے بھرے ہوئے تھن دیکھ کر سمجھے کہ جانور بہت دودھ دینے والا ہے، اور زیادہ قیمت میں خریچ لے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک طرح کا دھوکا فریب ہے۔ آگے اس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی نے ایسا جانور خریدا تو اس کو اختیار ہے کہ اپنے گھر پر دوہنے کے بعد اگر جانور کو ناپسند کرے تو واپس کر دے اور پسن کرے تو اپنے پاس رکھ لے۔ اور واپس کرنے کی صورت میں ایک صاع (قریبا ً ۴ سیر) کھجوریں بھی جانور کے مالک کو پیش کر دے۔ صحیح مسلم کی اس حدیث کی روایت میں الفاظ ہیں "فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ" جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا جانور خریدنے والے کو تین دن تک واپسی کا اختیار رہے گا۔ (اس کے بعد واپسی کا ھق نہ ہو گا)۔ نیز "مسلم" کی اس روایت میں " صَاعًا مِنْ تَمَرٍ" کے بجائے "صَاعًا مِنْ طَعَامٍ لَا سَمْرًا" کے الفاظ ہیں ان کی بناء پر ایک صاع کھجوروں کی جگہ گیہوں کے علاوہ ایک صاع کوئی غلہ (جَو وغیرہ) دینا بھی صحیح ہو گا۔ جانور کی واپسی کی صورت میں اس کے مالک کو ایک صاع کھجور وغیرہ پیش کرنے کی ہدایت کی حکمت و مصلحت شاید یہ ہو کہ خریدنے والے نے ایک دن یا دو دن یا تین دن (جب تک جانور کو اپنے پاس رکھا) اس کا دودھ دوہا اور استعمال کیا، ساتھ ہی اس کے کھلانے پلانے پر خرچ بھی کیا، اس طرح حساب گویا برابر ہو گیا۔ پھر بھی جو کسر رہی ہو اور واپسی سے جانور کے مالک کی جو دل شکنی ہوئی ہو اس کی مکافات اور واپسی کے معاملہ کی ناخوشگواری ختم کرنے یا کم کرنے کے لئے یہ ہدایت دی گئی ہو۔ واللہ اعلم۔
Top