معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1785
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَزْهِيَ، فَقِيلَ لَهُ: وَمَا تَزْهِيَ؟ قَالَ: حَتَّى تَحْمَرَّ. وَقَالَ: «أَرَأَيْتَ إِذَا مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ، بِمَا يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مَالَ أَخِيهِ» (رواه البخارى ومسلم)
خرید و فروخت کے متعلق احکامات: پھلوں کی فصل تیاری سے پہلے نہ بیچی ، خریدی جائے
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا تھا تا آنکہ ان پر رونق آ جائے، عرض کیا گیا کہ رونق آ جانے سے کیا مطلب ہے؟ آپ ﷺ نے فریاما مطلب یہ ہے کہ سرخی آ جائے۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فریاما کہ بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھل عطا نہ فرمائے (یعنی بحکم خداوندی کسی آفت سے پھل تیار ہونے سے پہلے ضائع ہو جائیں) تو بیچنے والا کس چیز کے عوض میں (خریدنے والے) اپنے بھائی سے مال وصول کرے گا۔ (صحیح بخاری و مسلم)

تشریح
علماء نے لکھا ہے کہ اگر پھل میں ایسا نقصان ہو گیا ہے کہ خریدار کو کچھ بھی نہیں بچا، سب برباد ہو گیا تو باغ فروخت کرنے والے کو چاہئے کہ قیمت بالکل نہ لے اور لے چکا ہے تو واپس کر دے اور اگر نہیں بلکہ کچھ نقصان ہو گیا ہے تو اس کا لحاظ کر کے قیمت میں تخفیف اور کمی کر دے۔ ان احکام کی روح یہ ہے کہ ہر ایک کی خیر خواہی اور مناسب حد تک ہر ایک کے مفاد کی حفاطت کی جائے۔
Top