معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1782
عَنْ أَبِىْ سَعِيدٍ، قَالَ: جَاءَ بِلاَلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مِنْ أَيْنَ هَذَا؟»، قَالَ بِلاَلٌ: كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ، فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ، فَقَالَ: «أَوَّهْ، عَيْنُ الرِّبَا، لاَ تَفْعَلْ، وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِبِهِ» (رواه البخارى ومسلم)
رِبا (سود)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ بلال ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بہت اچھی قسم کی (برنی) کھجوریں لائے۔ حضور ﷺ نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہمارے پاس گھٹیا قسم کی کھجوریں تھیں میں نے وہ دو صاع دے کر یہ برنی ایک صاع خرید لیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اوہو! یہ تو عین ربا ہوا، آئندہ ایسا کبھی نہ کرو، جب تم (کھجوروں سے) کھجوریں خریدنی چاہو تو پہلے اپنی کھجوریں بیچ دے۔ پھر ان کی قیمت سے دوسری کھجوریں خرید لو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت بلال ؓ (جو یقینا اس سے ناواقف نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ربوا کو حرام قرار دیا ہے) انہوں نے جس طرح کھجوریں خریدی تھیں اس کو انہوں نے ربوا نہیں سمجھا تھا وہ "ربوا" قراض والے سود ہی کو سمجھتے تھے۔ جس کو عام طور سے ربوا کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو بتلایا کہ کمی بیشی کے ساتھ کھجوروں کا تبادلہ بھی ربوا کے حکم میں ہے، بقول حضرت شاہ ولی اللہ قرض والا ربوا "حقیقی ربوا" ہے اور حضرت ابو سعیدؓ وغیرہ کی حدیثوں میں جس کو ربوا قرار دیا گیا ہے وہ "حکمی ربوا" ہے یعنی ربوا کے حکم میں ہے۔
Top