معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1778
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « إِنَّ الرِّبَا وَإِنْ كَثُرَ، فَإِنَّ عَاقِبَتَهُ تَصِيرُ إِلَى قُلٍّ» (رواه احمد وابن ماجه والبيهقى فى شعب الايمان)
رِبا (سود)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: سود اگرچہ کتناہی زیادہ ہو جائے لیکن اس کا آخری انجام قلت اور کمی ہے۔ (مسند احمد، سنن ابن ماجہ، شعب الایمان للبیہقی)

تشریح
اگرحدیث کے لفظ عاقبۃ سے اخروی انجاممراد لیا جائے تو ظاہر ہے کہ کسی صاحبِ ایمان کو اس میں شک شبہ نہیں ہو گا، عالم آخرت میں پہنچ کر ہم سب دیکھ لیں گے کہ جن لوگوں نے سود کے ذریعہ اپنی دولت میں اضافہ کیا اور یہاں وہ لکھ پتی کروڑ پتی ہو گئے، آخرت میں وہ بالکل مفلس کوڑی کوڑی کے محتاج ہوں گے اور ان کی وہ دولت ہی ان کے لئے وبال اور عذاب ہو گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں اطلاع دی ہے۔ اور اگر حدیث کا مطلب یہ لیا جائے کہ سود کے ذریعہ دولت خواہ کتنی ہی بڑھ جائے لیکن آخر کار دنیا میں بھی اس پر زوال آئے گا تو طاہر نبیوں کو تو اس میں شک اور کلام ہو سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جن کو حقائق دیکھنے والی نگاہ دی ہے انہیں اس میں بھی کوئی شک شبہ نہ ہو گا۔ بکثرت ایسے واقعات مشہور ہیں کہ ایک شخص سود کے ذریعہ اپنی دولت میں اضافہ کرتا رہا اور وہ اپنے وقت کا قارون بن گیا، پھر کبھی اس شخص کی زندگی ہی میں اور کبھی اس کے بعد کوئی ایسا حادثہ رونما ہوا اور ایسی کوئی آفت آئی جس نے سارا حساب برابر کر دیا اور کبھی کبھی تو وہ لکھ پتی اور کروڑ پتی دیوالیہی اور محتاج ہو کر رہ گیا۔ اور یہ بات سو فیصدی مشاہدہ اور تجربہ میں ہے کہ سود خور لوگ اس حقیقی راحت اور عزت و احترام سے یکسر محروم رہتے ہیں جو دولت کا اصل مقصد اور ثمرہ ہے، اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ کوئی سود خور سودی کاروبار کے ذریعہ خواہ کتنی ہی دولت پیدا کر لے وہ دولت کے حقیقی لطف و ثمرہ سے ہمیشہ محروم ہی رہتا ہے، اس حساب سے وہ دولت مند ہونے کے باوجود مفلس اور تہی دست ہی ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے "يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا " (ربا اور سود سے کمائی ہوئی دولت کو اللہ تعالیٰ برکت سے محروم رکھتا ہے اور اس پر دیر سویر بربادی آتی ہے) حضرت ابن مسعودؓ کی اس حدیث میں اسی ارشادِ خداوندی کی ترجمانی کی گئی ہے۔
Top