معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1777
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: «إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ وَلَمْ يُفَسِّرْهَا لَنَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّيبَةَ» (رواه ابن ماجة والدارمى)
رِبا (سود)
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ: ربو ا والی آیت (یعنی سورہ بقرہ کی جس آیت میں ربوا کی حرمت کا قطعی اعلان فرمایا گیا ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی حیات کے) آخری دور میں نازل ہونے والی آیتوں میں سے ہے۔ حضور ﷺ اس دنیا سے اُٹھا لئے گئے اور آپ ﷺ نے ہمارے لئے اس کی پوری تفسیر و تشریح نہیں فرمائی، لہذا ربوا کو بالکل چھوڑ دو اور اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی پرہیز کرو۔ (سنن ابن ماجہ، مسند دارمی)

تشریح
"ربوا" عربی زبان کا ایک عام معروف لفظ تھا جو نزول قرآن سے پہلے بھی بولا جاتا تھا اور وہاں کا ہر شخص اس کا مطلب سمجھتا تھا اور وہ وہی تھا جو اوپر تمہیدی سطروں میں بیان کیا گیا ہے اس لئے جب حرمت ربوا والی آیت نازل ہوئی تو وہاں سب نے اس سے یہی سمجھا کہ سودی کاروبار (جس کا وہاں رواج تھا) حرام قرار دے دیا گیا، اس میں نہ کسی کو کوئی شبہ ہوا اور نہ کسی شبہ کی گنجائش تھی۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض ارشادات میں جو (آگے درج ہو رہے ہیں) خرید و فروخت کی بعض ایسی صورتوں کے بھی "ربوا" کے حکم میں ہونے کا اعلان فرمایا جن میں کسی پہلو سے ربوا کا شائبہ تھا اور جن کو وہاں پہلے "ربوا" نہیں کہا اور سمجھا جاتا تھا مگر اس سلسلہ کی ساری جزئیات رسول اللہ ﷺ نے بیان نہیں فرمائیں بلکہ جیسا کہ حکمت شریعت کا تقاضا تھا اصولی ہدایت فرما دی اور یہ کام امت کے مجتہدین اور فقہا کے لئے رہ گیا کہ وہ آپ کی دی ہوئی اصولی ہدایات کی روشنی میں جزئیات کے بارے میں فیصلہ کریں (تمام ابواب شریعت کا یہی حال ہے) لیکن حضرت عمر ؓ جو امت کے فقہا و مجتہدین کی صف اول میں ہیں ربوا کے بارے میں سخت وعیدوں سے ڈرتے اور لرزتے ہوئے یہ خواہش رکھتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اس باب (ربوا) کی وہ جزئیات بھی بیان فرما جاتے جو آپ ﷺ نے بیان فرمائیں اور جن کے بارے میں اب اجتہاد سے فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اپنے اس انتہائی خدا ترسانہ اور محتاط نقطہ نظر کی بناء پر انہوں نے اپنے اس ارشاد کے کے آخر میں فرمایا " فَدَعُوا الرِّبَوا وَالرِّيْبَة " یعنی اب اہل ایمان کے لئے راہِ عمل یہ ہے کہ وہ "ربوا" اور اس کے شبہ اور شائبہ سے بھی اپنے کو بچائیں لیکن اس کے برعکس ہمارے زمانہ کے بعض دانشور مدعیان اجتہاد حضرت عمر ؓ کے اس ارشاد سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ "ربوا" کی حقیقت مشتبہ بلکہ نامعلوم ہے اور پھر اس کی بنیاد پر وہ سود کی بہت سی مروجہ صورتوں کا جواز نکالتے ہیں۔ "ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا ہکجا"
Top