معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1754
عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ رَجُلًا كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَتَاهُ المَلَكُ لِيَقْبِضَ رُوحَهُ، فَقِيلَ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: مَا أَعْلَمُ، قِيلَ لَهُ: انْظُرْ، قَالَ: مَا أَعْلَمُ شَيْئًا غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ أُبَايِعُ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا وَأُجَازِيهِمْ، فَأُنْظِرُ المُوسِرَ، وَأَتَجَاوَزُ عَنِ المُعْسِرِ، فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ " (رواه البخارى ومسلم وفى رواية لمسلم) نحوه عن عقبة بن عامر وابى مسعود الانصارى فقال الله انا احق بذا منك تجاوزوا عن عبدى.
مالی معاملات میں دوسروں کے ساتھ نرمی اور رعایت
حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا کہ تم سے پہلی کسی امت میں ایک آدمی تھا جب موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا (اور قبض روح کے بعد وہ اس دنیا سے دوسرے عالم کی طرف منتقل ہو گیا) تو اس سے پوچھا گیا کہ تونے دنیا میں کوئی نیک عمل کیا تھا؟ (جو تیرے لیے وسیلہ نجات بن سکے) اس نے عرض کیا کہ میرے علم میں میرا کوئی (ایسا) عمل نہیں ہے۔ اس سے کہا گیا کہ (اپنی زندگی پر) نظر ڈال (اور غورکر!) اس نے پھر عرض کیا کہ میرے علم میں (میرا ایسا کوئی عمل اور) کوئی چیز نہیں سوا اس کے کہ میں لوگوں کے ساتھ کاروبار اور خرید و فروخت کا معاملہ کیا کرتا تھا تو میرا رویہ ان کے ساتھ درگزر اور احسان کا ہوتا تھا" میں پیسے والوں اور اصحاب دولت کو بھی مہلت دے دیتا تھا (کہ وہ بعد میں جب چاہیں عطا کر دیں) اور غریبوں مفلسوں کو معافی بھی کر دیتا تھا۔ تو اللہ تعالی نے اس شخص کے لئے جنت میں داخلہ کا حکم فرما دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) حضرت حذیفہ کی یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اسی طرح روایت کی گئی۔ اور صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر اور حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے بھی یہ حدیث روایت کی گئی ہے اور اس کے آخر میں بجائے"فَأَدْخَلَهُ اللَّهُ الجَنَّةَ" کے یہ الفاظ ہیں "انا احق بذا منك تجاوزوا عن عبدى" (اللہ تعالی نے اس شخص سے فرمایا کہ احسان اور درگزر کا جو معاملہ تو میرے بندوں سے کرتا تھا(کہ غریبوں مفلسوں کو معاف بھی کر دیتا تھا)یہ(کریمانہ رویہ)میرے لیے زیادہ سزاوار ہے اور اس کا تجھ سے زیادہ حقدار ہو (کہ معافی اور درگذر کا معاملہ کروں) اور اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے اس بندے سے درگزر کرو (یہ معاف کردیا گیا اور بخش دیا گیا)۔

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے پہلے زمانہ کے کسی شخص کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے ظاہر ہے کہ وہ آپ ﷺ کو وحی سے ہی معلوم ہوا ہو گا، یہ شخص دنیا سے ایسے حال میں گیا کہ خود اس کی نظر میں اس کا کوئی عمل ایسا نہیں تھا جس کی بنیاد پر وہ نجات اور جنت کی امید کرسکتا سوا اس کے کہ وہ کاروباری معاملات اور لین دین میں اللہ کے بندوں کے ساتھ رعایت کیا کرتا اور ان کو سہولت دیا کرتا تھا۔ اگر کسی اور غریب شخص کے ساتھ کوئی چیز ادھار بیچی ہوتی یا قرض دیا ہوتا اور وہ ادا نہ کر سکتا تو اس کو معاف کر دیا کرتا تھا اور پیسے والوں سے بھی فورا ادائیگی پر اصرار نہیں کرتا تھا بلکہ ان کو مہلت دے دیتا تھا کے آئندہ ادا کردیں۔ اللہ تعالی نے اس کے اسی عمل کی بنیاد پر مغفرت فرما دی۔ اور اس کو جنت کا پروانہ عطا ہو گیا۔ تعلیم اور نصیحت کا یہ مؤثر ترین طریقہ ہے کہ اگلوں کے سبق آموز واقعات بیان کئے جائیں۔ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں یا بعض اشخاص و افراد کے جو واقعات اور قصص بیان فرمائے گئے ہیں ان کا خاص مقصد و مدعا یہی ہے۔ حدیث میں اور اس سے آگے والی حدیث میں حضور ﷺ نے نصیحت اور تربیت کا یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔
Top