معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1751
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُبْهَاتَ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً، إِذَا صَلَحَتْ، صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ، فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ " (رواه البخارى ومسلم)
مقام تقوی مشتبہ سے بھی پرہیز ضروری
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو حلال ہے وہ واضح اور روشن ہے اور جو حرام ہے وہ بھی واضح اور روشن ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ چیزیں ہیں جو مشتبہ ہیں ان کو (یعنی ان کے شرعی حکم کو) بہت سے لوگ نہیں جانتے بس جو شخص شبہ والی چیزوں سے بھی (ازراہ احتیاط) پرہیز کرے وہ اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لے گا اور بے داغ رہے گا۔ اور جو شخص شبہ والی چیزوں میں پڑے گا اور مبتلا ہوگا وہ (خدا نکردہ) حرام کے حدود میں جا گرے گا۔ اس چرواھے کی طرح جو اپنے جانور محفوظ سرکاری علاقے کے آس پاس بالکل قریب میں چراتا ہے تو اس کا قریبی خطرہ ہوتا ہے کہ وہ جانور اس محفوظ سرکاری علاقے میں داخل ہو کر چرنے لگیں (جو قابل سزا جرم ہے) اور معلوم ہونا چاہیے کہ ہر بادشاہ اور فرمانروا کا ایک حمی (محفوظ علاقہ) اس کے محارم یعنی محرمات ہیں (آدمی کو چاہیے کہ اس کے قریب بھی نہ جائے یعنی مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے) اور خبردار! انسان کی جسم میں ایک مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) ہے (جس کی شان یہ ہے) کہ اگر وہ ٹھیک ہو (یعنی اس میں نور ایمان خدا کی معرفت اور اس کا خوف ہو) تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے (یعنی اس کے اعمال و احوال صحیح و درست ہوتے ہیں) اور اگر اس کا حال خراب ہو تو سارے جسم کاحال بھی خراب ہوتا ہے (یعنی اس کے اعمال و احوال خراب ہو جاتے ہیں) آگاہ رہو گوشت کا وہ ٹکڑا قلب ہے۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے پورے ذخیرہ میں چند حدیثیں وہ ہیں جن کو امت کے علما اور فقہا نے بہت اہم اور اصولی سمجھا ہے انہی میں حضرت نعمان بن بشیرؓ کی روایت کی ہوئی یہ حدیث بھی ہے رسول اللہ ﷺ نے اپنے اس ارشاد میں سب سے پہلے تو یہ فرمایا ہے کہ شریعت میں جو چیزیں اور جو معاملات صراحت کے ساتھ حلال یا حرام قرار دیے گئے ہیں ان کا معاملہ تو صاف اور روشن ہے لیکن ان کے علاوہ بہت سی چیزیں اور بہت سے معاملات ایسے ہیں جن کا جائز یا ناجائز ہونا کسی صریح دلیل سے معلوم نہ ہوسکے گا بلکہ دونوں رایوں کی گنجائش ہوگی مثلا شریعت کے ایک اصول کی روشنی میں ان کو جائز اور کسی دوسرے اصول کی روشنی میں ناجائز قرار دیا جا سکے گا تو ایسی شبہ والی چیزوں اور ایسے معاملات کے بارے میں بندہ مومن کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ ازراہ احتیاط و تقوی ان سے بھی پرہیز کرے اسی میں دین اور آبرو کی حفاظت ہے۔ آگے آپ نے ارشاد فرمایا کہ ..... "جو شخص ایسی مشتبہ چیزوں سے پرہیز کا اہتمام نہ کرے گا تو وہ بےاحتیاطی کا عادی بن کر محرمات کا بھی مرتکب ہوجائے گا"۔ پھر اس بات کو مثال سے سمجھاتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مثلا جو چرواہا اپنے جانوروں کو اس سرکاری محفوظ علاقہ کے قریب اور بالکل اس کی سرحد پر چلائے گا جس میں عوام کے لیے جانوروں کا چرانا جرم ہے تو بعید نہیں کہ اس کے جانور کسی وقت اس محفوظ علاقہ کی حدود میں داخل ہو کر کرنے لگیں پس جس طرح چرواہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو سرکاری علاقہ سے دور ہی رکھے اور اس کے قریب بھی نہ جانے دے اسی طرح بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ مشتبہ چیزوں اور مشتبہ معاملات سے بھی پرہیز کرے اس طرح وہ محرمات اور معصیات سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ یہی مقام تقویٰ ہے۔ آخر میں حضور ﷺ نے ایک نہایت اہم بات ارشاد فرمائی" فرمایا کہ انسانی وجود کے بگاڑ اور سدھار " سعادت اور شقاوت کا دارومدار اس کے قلب کے حال پر ہے جو انسان کے پورے جسمانی وجود پر اور تمام اعضاء پر حکمرانی کرتا ہے اگر وہ درست ہو گا اور اس میں خدا کی معرفت کا خوف اور ایمان کا نور ہوگا تو انسان کا پورا جسمانی وجود درست رہے گا اور اس کے اعمال و احوال صحیح اور صالح ہوں گے اور اگر قلب میں فساد و بگاڑ ہوگا اور اس پر حیوانی و شیطانی جذبات کا غلبہ ہو گا تو اس کا جسمانی وجود فاسد اور غلط کار ہوگا اور اس کے اعمال و احوال شیطانی وحیوانی ہونگے۔ اس حدیث میں قلب سے مراد انسان کا وہ باطنی حاسہ ہے جس کا رجحان خیر یا شر کی طرف ہوتا ہے۔ اس کو مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کے سینہ میں بائیں جانب صنوبری شکل کا جو ایک خاص اور عضو اور مضغہ لحم ہے جس کو قلب اور دل کہا جاتا ہے وہ اس باطنی حاسہ کا خاص محل اور گویا اس کا تخت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث پاک میں پہلے تو محرمات کے علاوہ مشتبہات سے بھی بچنے اور پرہیز کرنے کی تاکید فرمائی جو تقوی کی بنیادی شرط ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے قلب کے بارے میں یہ آگاہی دی اور بتلا کر کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا دارومدار قلب کے صلاح و فساد پر ہے اس کی حفاظت اور نگرانی کی طرف توجہ دلائی۔ مبارک ہیں وہ بندے جو قلب اور باطن کی اس اہمیت کو سمجھتے ہیں اور قالب اور ظاہر سے زیادہ اپنے قلب اور باطن کی فکر رکھتے ہیں۔ حضرات صوفیائے کرام کا یہی امتیاز ہے اور رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت کی اہمیت کو سب سے زیادہ انہوں نے سمجھا ہے۔ اللہ تعالی ان کی برکات سے ہمیں محروم نہ فرمائے۔ بعض شارحین نے اس حدیث پاک کے مضامین کی ترتیب سے یہ بھی سمجھا ہے کہ قلب کی صفائی اور طہارت کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کھانے پینے میں محرمات کے علاوہ مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے۔
Top