معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1750
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ، لاَ يُبَالِي المَرْءُ بِمَا أَخَذَ مِنْهُ، مِنَ الْحَلاَلِ أَمْ مِنْ الحَرَامِ» (رواه البخارى وزاد عليه فاذ ذالك لا تجاب لهم دعوة)
حرام مال کی نحوست اور بد انجامی
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ آدمی کو اس کی پروا نہ ہوگی کہ وہ جو لے رہا ہے حلال ہے یا حرام جائز ہے یا ناجائز۔ (صحیح بخاری)

تشریح
حدیث کا مطلب بالکل ظاہر ہے اور رسول اللہ ﷺ نے جس زمانہ کی اس حدیث میں خبر دی ہے بلاشبہ وہ آچکا ہے آج امت میں ان لوگوں میں بھی جو دیندار سمجھے جاتے ہیں کتنے ہیں جو اپنے پاس آنے والے روپیہ پیسہ یا کھانے پہننے کی چیزوں کے بارے میں یہ سوچنا اور تحقیق کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا ناجائز۔ ہو سکتا ہے کہ آگے اس سے بھی زیادہ خراب زمانہ آنے والا ہو۔ (مسند رزین کی اسی حدیث کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اس وقت ان لوگوں کی دعائیں قبول نہ ہوں گی) حلال و حرام اور جائز و ناجائز میں تمیز نہ کرنا روح ایمانی کی موت ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی اس سلسلہ کی تعلیمات و ہدایات نے صحابہ کرام کی زندگیوں اور ان کے دلوں پر کیا اثر ڈالا تھا اس کا اندازہ ان دو واقعات سے کیا جا سکتا ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت صدیق اکبر ؓٗ کا یہ واقعہ مروی ہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی آپ نےاس میں سے کچھ کھا لیا اس کے بعد اس غلام نے بتلایا کہ یہ چیز مجھے اس طرح حاصل ہوئی کہ اسلام کے دور سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی کو میں نے اپنے کو کاہن ظاہر کرکے دھوکا دیا تھا اور اس کو کچھ بتلا دیا تھا۔ جیسے کہ کاہن لوگ بتلا دیا کرتے تھے تو آج وہ آدمی ملا اور اس نے مجھے اس کے حساب میں کھانے کی یہ چیز دی۔ حضرت ابوبکرؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے حلق میں انگلی ڈال کر قے کی اورجو کچھ پیٹ میں تھا سب نکال دیا۔ اسی طرح امام بیہقی نے حضرت عمر ؓٗ کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت عمر ؓ کی خدمت میں دودھ پیش کیا آپؓ نے اس کو قبول فرما لیا اور پی لیا آپ نے اس آدمی سے پوچھا کہ دودھ تم کہاں سے لائے؟ اس نے بتلایا کہ فلاں گھاٹ کے پاس سے میں گزر رہا تھا وہاں زکوۃ کے جانور اونٹنیاں بکریاں وغیرہ تھیں لوگ ان کا دودھ دوہ رہے تھے انہوں نے مجھے بھی دیا میں نے لے لیا یہ وہی دودھ تھا۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی طرح حلق میں انگلی ڈال کر آپ نے بھی قے کردی اور اس دودھ کو اس طرح نکال دیا۔ (مشکوۃ) ان دونوں واقعوں میں ان دونوں بزرگوں نے جو کھایا یا پیا تھا کیونکہ لاعلمی اور بے خبری میں کھایا پیا تھا اس لئے ہرگز گناہ نہ تھا لیکن حرام غذا کے بارے میں حضور ﷺ سے جو کچھ ان حضرات نے سنا تھا اس سے یہ اتنے خوفزدہ تھے کہ اس کو پیٹ سے نکال دینے کے بغیر چین نہ آیا۔ بےشک حقیقی تقوی ہی ہے۔
Top