معارف الحدیث - کتاب المعاملات - حدیث نمبر 1740
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ» (رواه الترمذى والدارمى والدار قطنى ، ورواه ابن ماجة عن ابن عمر)
سچائی اور دیانت داری کے ساتھ کاروبار کرنے والے انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پوری سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر نبیوں اور صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (جامع ترمذی سنن دارمی سنن دارقطنی) اور ابن ماجہ نےیہی حدیث اپنی سند سے حضرت ابنِ عمر ؓ سے روایت کی ہے۔

تشریح
" الصدوق " اور " الامین " دونوں مبالغے کے صیغے ہیں حدیث کا مطلب اور پیغام واضح ہے کہ جو تاجر اور سوداگر اپنے کاروبار میں سچائی اور امانت یعنی دیانتداری کی پورے اہتمام سے پابندی کریں گے قیامت اور آخرت میں وہ نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہونگے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔ "وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا " (جو بندے اللہ و رسول ﷺ کی فرمانبرداری کریں گے’ وہ (قیامت و آخرت میں) ان مقبولین و مقربین کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی کا خاص انعام ہے یعنی انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین (کے ساتھ) اور یہ سب بہت ہی اچھے رفیق ہیں) تجارت اور سوداگری بڑی آزمائش کی چیز ہے تاجر کے سامنے بار بار ایسی صورتیں آتی ہیں کہ اگر وہ خدا کے حکم کے مطابق سچائی اور دیانت داری کا لحاظ کرنے کے بجائے اس وقت وہ اپنی تجارتی مصلحت کے مطابق بازاری بات کرے تو ہزاروں لاکھوں کا نفع ہوتا ہے۔ پس جو تاجر اپنی تجارتی مصلحت اور نفع نقصان سے صرف نظر کر کے اللہ کے حکم کے مطابق ہر حال میں سچائی اور ایمانداری کی پابندی کرتا ہے وہ خدائی امتحان میں بڑا کامیاب ہے اور اس حدیث میں ایسے تاجروں کو بشارت سنائی گئی ہے کہ قیامت و آخرت میں وہ اللہ کے مقبول ترین بندوں یعنی نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوں گے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ ان کی سچائی و دیانت داری کا صلہ ہوگا۔ تنبیہ ...... اسی سلسلہ معارف الحدیث میں قرآن و حدیث کے نصوص کی بنیاد پر بار بار یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ایسی تمام بشارتیں اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہیں کہ وہ آدمی ان خبیث اور مہلک باتوں سے پرہیز کرے جو بندے کو اللہ تعالی کی رحمت سے محروم کر دیتی ہیں۔
Top