معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1731
عَنْ عَائِشَةَ جَاءَتْ امْرَأَةُ رِفاعَةَ القُرَظِيِّ اِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: كُنْتُ عِنْدَ رِفَاعَةَ، فَطَلَّقَنِي، فَبَتَّ طَلاَقِي، فَتَزَوَّجْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ وَمَا مَعَهُ إِلَّا مِثْلُ هُدْبَةِ الثَّوْبِ، فَقَالَ: «أَتُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ قَالَ لَا حَتَّى تَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ وَيَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ». (رواه البخارى ومسلم)
تین طلاق دینے کا نتیجہ اور شرعی حکم
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رفاعہ قرضی کی بیوی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے بتایا کہ میں رفاعہ قرضی کے نکاح میں تھیں اس نے مجھے طلاق دے دی اور طلاق کا پورا کورس ختم کردیا یعنی اس نے مجھے تین طلاقیں دے دیں تو اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کرلیا لیکن وہ بالکل ازکار رفتہ ہیں یعنی نکاح سے جو خاص مقصد ہوتا ہے وہ اس کے قابل نہیں ہے رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم کیا یہ چاہتی ہے کہ پھر رفاعہ کے نکاح میں چلی جائے اس نے کہا ہاں یہی چاہتی ہوں آپ ﷺ نے فرمایا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک کہ تم دونوں میں باہم صحبت کا عمل نہ ہو جائے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
شریعت کا یہ حکم قرآن مجید میں بھی بیان فرمایا گیا ہے سورہ بقرہ میں ارشاد ہے: "فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ" (مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو دو طلاق دینے کے بعد تیسری طلاق بھی دے دی تو وہ عورت اس شوہر کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک کسی دوسرے شوہر کے نکاح میں نہ رہی ہو) اس کے بعد وہ دوسرا شوہر اگر انتقال کر جائے یا طلاق دے دے تو عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکے گا۔ پھر اس حدیث سے اور اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثوں سے اس آیت کی تفسیر تشریح یہ معلوم ہوئی کہ دوسرے شوہر کے ساتھ صرف عقد نکاح ہو جانا کافی نہیں بلکہ وہ عمل بھی ضروری ہے جو نکاح سے خاص طور پر مقصود ہوتا ہے جمہور ائمہ امت کا مسلک اس مسئلہ میں یہی ہے واقعہ یہ ہے کہ اگر دوسرے شوہر کے ساتھ زنا شوئی کی پابندی نہ ہو تو نکاح ثانی کی شرط بالکل لغو اور بے معنی ہوکر رہ جائے گی۔
Top