معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1729
عَنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَغَيَّظَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «لِيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ يُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ تَحِيضَ فَتَطْهُرَ، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا فَلْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَتِلْكَ العِدَّةُ الَّتِىْ أَمَرَ اللَّهُ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ» (رواه البخارى ومسلم)
طلاق کا وقت اور طریقہ
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ خود انھوں نے اپنی بیوی کو ایسی حالت میں کہ اسکی ناپاکی کے ایام جاری تھے طلاق دے دی تو ان کے والد حضرت عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے اس پر بہت سخت برہمی اور ناراضی کا اظہار فرمایا اور حکم دیا کہ عبداللہ ابن عمر کو چاہیے کہ وہ اس طلاق سے رجعت کر لے اور بیوی کو اپنے پاس اپنے نکاح میں رکھے یہاں تک کہ ناپاکی کے ایام ختم ہوکر طہر یعنی پاکی کے ایام آ جائیں اور پھر اس طہر کی مدت ختم ہو کر دوبارہ ناپاکی کے ایام آ جائیں اور اس کے بعد وہ پھر طہر کی حالت میں آجائے تو اس حالت میں اگر وہ طلاق ہی دینا مناسب سمجھے تو اس طہر میں اس سے صحبت کئے بغیر اس کو طلاق دے دے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہی وہ عدت ہے جس کے بارے میں قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے۔ "فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ " (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق دینا ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے اور اگر غلطی سے کوئی ایسا کرے تو اس کو رجعت کر لینی چاہیے پھر اگر طلاق ہی دینے کی رائے قائم ہو تو اس طہر میں طلاق دینی چاہیے جس میں صحبت کی نوبت نہ آئی ہو اس کی حکمت ظاہر ہے کہ ناپاکی کی حالت میں عورت قابل رغبت نہیں ہوتی طہر کی حالت میں اس کا کافی امکان ہے کہ شوہر کے دل میں رغبت پیدا ہو جائے اور طلاق دینے کا خیال ہی ختم ہوجائے اور اللہ و رسول کی زیادہ خوشی اسی میں ہے۔ اس واقعہ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو حکم دیا کہ جو تالاب انہوں نے حیض کی حالت میں دی گئی تھی وہ اس سے رجعت کر لیں اور ایک طہر گزر جانے دیں اور اگر طلاق دینی ہی ہو تو پھر دوسرے طہر میں دیں اس کا مقصد بھی بظاہر یہی تھا کہ درمیان کے طہر کی پوری مدت میں جب دونوں ساتھ رہیں گے تو اس کا امکان ہے کہ تعلقات میں پھر خوشگواری آجائے اور طلاق کی نوبت ہی نہ آئے لیکن اگر ایسا نہ ہو اور طلاق دینے ہی کا فیصلہ ہو تو آپ ﷺ نے اجازت دی کہ دوسرے طہر میں قبل از صحبت طلاق دی جائے قبل از صحبت کی پابندی لگانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ جب ناپاکی کے ایام ختم ہوتے ہیں تو فطری طور پر صحبت کی رغبت ہوتی ہے اس طرح یہ پابندی بھی طلاق دینے میں رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ اس واقعہ میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو رجعت کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ عورت کو حیض کے ایام طلاق دینا اگرچہ ناجائز اور سخت گناہ کی بات ہے لیکن یہ طلاق واقع ہو جاتی ہے اگر طلاق نہ ہوئی ہوتی تو رجعت کی ضرورت ہی نہ ہوتی اور آنحضرت ﷺ رجعت کا حکم دینے کے بجائے یہ فرماتے کہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی۔
Top