معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1710
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: إِنِّي تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ. قَالَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ. (رواه البخارى ومسلم)
شادی کے بعد ولیمہ
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبدالرحمٰن بن عوف پر (یعنی ان کے کپڑوں پر یا جسم پر) زردی کا کچھ اثر دیکھا تو ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے کھجور کی گھٹلی کے وزن کے برابر سونے پر (یعنی اس کا مہر اتنا مقرر کیا ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تمہیں مبارک کرے! ولیمہ کی دعوت کرو اگرچہ پوری ایک بکری کر ڈالو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اپنی حسبِ خواہش کسی عورت سے نکاح ہو جانا بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت اور دِلی خوشی اور مسرت کی بات ہے اور اس کا حق ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اپنی دلی مسرت و شادمانی کا اظہار ہو، ولیمہ اس کی عملی شکل ہے۔ اس میں یہ حکمت بھی ہے کہ اس کے ذریعہ شادی کرنے والے مرد اور اس کے گھرانے کی طرف سے خوبصورتی کے ساتھ اس کا اعلان و اظہار ہو جاتا ہے کہ شادی کے اس رشتہ سے ہم کو اطمینان اور خوشی ہے اور ہم اس کو اللہ تعالیٰ کی قابلِ شکر نعمت سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز منکوحہ عورت اور اس کے گھر والوں کے لئے بڑی خوشی اور اطمینان کا باعث ہو گی اور اس سے باہمی تعلق و مودت میں اضافہ ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات اور عمل دونوں سے اس کی رہنمائی فرمائی۔ تشریح ..... حضور ﷺ کے ارشاد "أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ" کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ دل کھول کے ولیمہ کرو، چاہو تو اس ولیمہ کے لئے ایک بکری مستقل ذبح کر ڈالو۔ رسول اللہ ﷺ اپنے اصحاب اور رفقاء کی تطییب خاطر کے لئے کبھی ایسی بےتکلفی اور خوش طبعی کی باتیں بھی فرمایا کرتے تھے، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف سے آپ ﷺ کا یہ ارشاد بھی اسی قبیل سے تھا۔ ایک بات اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و تربیت نے صحابہ کرامؓ کو ایسا بنا دیا تھا کہ وہ اپنی شادی نکاح کی تقریبات میں بھی حضوڑ کو شرکت کی زحمت نہیں دیتے تھے، بلکہ اطلاع کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ عبدالرحمٰن بن عوف جو خواص اصحاب اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں انہوں نے خود اپنی شادی کی اور حضور ﷺ کو خبر بھی نہیں ہوئی۔ حدیث میں عبدالرحمٰن بن عوف پر زردی کے اثر کا جو ذکر ہے، اس کی حقیقت یہ سمجھنی چاہئے کہ نئی دلہنیں زعفران وغیرہ سے رنگے ہوئے کپڑے پہنتی تھیں، اس کا اثر مرد کے کپڑوں یا جسم پر بھی آ جاتا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح کا اثر عبدالرحمن بن عوف پر محسوس کیا تھا۔ واللہ اعلم۔
Top