معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1705
عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ فَمَاتَ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ فَزَوَّجَهَا النَّجَاشِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمْهَرَهَا عنه أَرْبَعَةَ آلاَفٍ وَبَعَثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةَ. (رواه ابوداؤد والنسائى)
مہر کی اہمیت اور اس کا لزوم
حضرت ام حبیبہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ وہ عبیداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں (اور اپنے شوہر کے ساتھ انہوں نے مکہ سے ملک حبشہ کو ہجرت کی تھی، وہیں حبشہ میں) ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش کا انتقال ہو گیا تو حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا اور حضور ﷺ کی طرف سے چار ہزار درہم مہر باندھ کے خود ہی ان کو ادا کر دیا اور شرحبیل بن حسنہ صحابی کے ساتھ ان کو حضور ﷺ کے پاس بھیج دیا۔ (سنن ابی داؤد، سنن نسائی)

تشریح
یہ ام ؓحبیبہؓ ابو سفیانؓ کی بیٹی تھیں جو فتح مکہ تک کفارِ مکہ کے لیڈر اور حضور ﷺ کے سخت ترین دشمن رہے، پھر ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے موقع پر ان کو قبولِ اسلام کی توفیق ہوئی لیکن ان کی بیٹی بہت پہلے دعوت اسلام کے ابتدائی دور ہی میں اسلام قبول کر چکی تھیں ان کے شوہر عبیداللہ بن جحش نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا، پھر جب مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں کو حد سے زیادہ ستایا گیا تو حضور ﷺ کی اجازت اور ایماء سے بہت سے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ام حبیبہؓ اور ان کے شوہر نے بھی ہجرت کی۔ پھر اللہ کی شان کچھ مدت کے بعد شوہر عبیداللہ بن جحش نے اسلام چھوڑ کر نصرانی مذہب اختیار کر لیا جو عام اہلِ حبشہ کا مذہب تھا اور شراب وغیرہ کثرت سے پینے لگے، پھر اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا لیکن ام حبیبہؓ استقامت کے ساتھ برابر اسلام پر قائم رہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو جب عبیداللہ بن جحش کے انتقال کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے ام حبیبہؓ کی قدردانی و دلداری اور دوسرے اہم مصالح کے پیش نظر ان کو اپنے نکاح میں لے لینے کا ارادہ کیا اور شاہ حبشہ نجاشی کے پاس قاصد بھیجا کہ ام حبیبہؓ کو میری طرف سے نکاح کا پیام دیا جائے۔ نجاشی نے ابرھہ نامی اپنی باندی کے ذریعہ ام حبیبہؓ کو پیام دیا۔ انہوں نے بہت ہی مسرت اور ممنونیت کے ساتھ اس کو منظور کر لیا، اور مہاجر مسلمانوں میں سے اپنے ایک قریبی عزیز خالد بن سعید بن العاصی کو اپنا وکیل بنا دیا اور جیسا کہ ابو داؤد اور نسائی کی اس زیرِ تشریح روایت میں ہے نجاشی نے حبشہ ہی میں ان کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے کر دیا اور خود ہی آپ ﷺ کی طرف سے مہر بھی نقد ادا کر دیا۔ ابو داأد کی اس روایت میں مہر کی مقدار چار ہزار درہم بتائی گئی ہے لیکن مستدرک حاکم وغیرہ کی روایت میں چار ہزار دینار ذکر کی گئی ہے، اور اصحابِ نقل و روایت نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ بہرحال ازواجِ مطہرات میںٰ سے حضرت ام حبیبہ ؓ کا مہر دوسری امہات المؤمنین کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا، لیکن یہ حضور ﷺ نے نہیں بلکہ نجاشی نے مقرر کیا تھا جو ایک بادشاہ تھا اور یہی اس کی شان اور حیثیت کے لائق تھا، اور جیسا کہ حدیث میں ہے اس نے خود ہی ادا بھی کیا، روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے چھٹے یا ساتویں سال کا ہے۔ نجاشی، حبشہ کے بادشاہوں کا لقب تھا، اس نجاشی کا اصل ن ام اصحمہ تھا وہ مہاجرین کے ذریعہ اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی دعوت و تعلیم سے واقف ہوا تھا۔ اور اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ۶؁ھ یا ۹؁ھ میں اس کا انتقال ہوا، رسول اللہ ﷺ کو وحی سے اس کی اطلاع ہوئی، آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو اس کی اطلاع دی اور مدینہ طیبہ میں اس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی۔ رضى الله تعالى عنه وارضاه
Top