معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1703
عَنْ مَيْمُونٍ الْكُرْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً عَلَى مَا قَلَّ مِنَ الْمَهْرِ أَوْ كَثُرَ لَيْسَ فِي نَفْسِهِ أَنْ يُؤَدِّيَ إِلَيْهَا حَقَّهَا لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهُوَ زَانٍ. (رواه الطبرانى فى الاوسط والصغير)
مہر کی اہمیت اور اس کا لزوم
میمون کردی اپنے والد سے روایت ہے کہ وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جس شخص نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس کے دل میں اس حق مہر کی ادائیگی کا ارادہ ہی نہیں ہے تو قیامت میں اللہ کے حضور میں زناکار کی حیثیت سے پیش ہو گا۔ (معجم اوسط ومعجم صغیب للطبرانی)

تشریح
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت سے جو نکاح کے سلسلہ میں سب سے پہلے صحیح بخاری کے حوالہ سے نقل کی گئی ہے معلوم ہو چکا کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں نکاح کا جو شریفانہ طریقہ عربوں میں رائج تھا اس میں بھی مہر مقرر کیا جاتا تھا یعنی نکاح کرنے والے مرد کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ بیوی کو ایک معین رقم ادا کرنا اپنے ذمہ لے۔ اسلام میں اس طریقہ کو برقرار رکھا گیا۔ یہ مہر اس بات کی علامت ہے کہ کسی عورت سے نکاح کرنے والا مرد اس کا طالب اور خواستگار ہے اور وہ اپنی حیثیت اور استطاعت کے مطابق اس کو مہر کا نذرانہ پیش کرتا ہے یا اس کی ادائیگی اپنے ذمہ لیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مہر کی کوئی خاص مقدار معین نہیں فرمائی کیوں کہ نکاح کرنے والوں کے حالات اور ان کی وسعت و استطاعت مختلف ہو سکتی ہے۔ البتہ خود آنحضرتﷺ نے اپنی صاحبزادیوں کا مہر پانچ سو درہم (یا اس کے قریب) مقرر فرمایا اور آپ ﷺ کی اکثر ازواجِ مطہرات کا مہر بھی یہی تھا۔ لیکن حضور ﷺ کے زمانہ میں اور آپ ﷺ کے سامنے اس سے بہت کم اور بہت زیادہ بھی مہر باندھے جاتے تھے۔ حضور ﷺ کی صاحبزادیوں اور ازواجِ مطہرات والے مہر کی پابندی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ مہر کے بارے میں قرآن وو حدیث کی ہدایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض فرضی اور رسمی بات اور زبانی جمع خرچ کے قسم کی چیز نہیں ہے بلکہ شوہر کے ذمہ اس کی ادائیگی لازم ہے، الا یہ کہ بیوی خود ہی وصول کرنا نہ چاہے۔ قرآن پاک میں صراحۃً ارشاد ہے۔ "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً" یعنی اپنی بیویوں کے مہر خوش دلی سے ان کو ادا کرو۔ (النساء ع: ۱) ..... اور رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں جو تاکید و تشدید فرمائی ہے وہ آگے درج ہونے والی بعض حدیثوں سے معلوم ہو گی۔ تشریح ..... مطلب یہ ہے کہ جو شخص اداء مہر کے بارے میں شروع ہی سے بدنیت ہے، اس نے مہر کا اقرار تو کر لیا ہے لیکن دن میں یہ ہے کہ یہ بس زبانی بات ہے، دینا لانا کچھ نہیں ہے تو اس کے نکاح میں اتنا بڑانقص اور وہ اس درجہ کا گنہگار ہے کہ قیامت میں وہ زنا کا مجرم قرار دیا جائے گا۔ قریب قریب اسی مضمون کی اس کے علاوہ بھی متعدد حدیثیں مختلف کتب حدیث کے حوالہ سے کنز العمال میں نقل کی گئی ہیں۔ ان حدیثوں میں ایسے لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید اور آگاہی ہے جو مہر کو صرف زبانی اور رسمی بات سمجھتے ہوئے اتنی بڑی رقم کے مہر مقرر کر لیتے ہیں جن کی ادائیگی کا کوئی امکان ہی نہیں ہوتا۔
Top