معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1693
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النِّكَاحَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ كَانَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْحَاءٍ فَنِكَاحٌ مِنْهَا نِكَاحُ النَّاسِ الْيَوْمَ، يَخْطُبُ الرَّجُلُ إِلَى الرَّجُلِ وَلِيَّتَهُ أَوِ ابْنَتَهُ، فَيُصْدِقُهَا ثُمَّ يَنْكِحُهَا، وَنِكَاحٌ آخَرُ كَانَ الرَّجُلُ يَقُولُ لاِمْرَأَتِهِ إِذَا طَهُرَتْ مِنْ طَمْثِهَا أَرْسِلِي إِلَى فُلاَنٍ فَاسْتَبْضِعِي مِنْهُ. وَيَعْتَزِلُهَا زَوْجُهَا، وَلاَ يَمَسُّهَا أَبَدًا، حَتَّى يَتَبَيَّنَ حَمْلُهَا مِنْ ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي تَسْتَبْضِعُ مِنْهُ، فَإِذَا تَبَيَّنَ حَمْلُهَا أَصَابَهَا زَوْجُهَا إِذَا أَحَبَّ، وَإِنَّمَا يَفْعَلُ ذَلِكَ رَغْبَةً فِي نَجَابَةِ الْوَلَدِ، فَكَانَ هَذَا النِّكَاحُ نِكَاحَ الاِسْتِبْضَاعِ، وَنِكَاحٌ آخَرُ يَجْتَمِعُ الرَّهْطُ مَا دُونَ الْعَشَرَةِ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ كُلُّهُمْ يُصِيبُهَا. فَإِذَا حَمَلَتْ وَوَضَعَتْ، وَمَرَّ عَلَيْهَا لَيَالِيَ بَعْدَ أَنْ تَضَعَ حَمْلَهَا، أَرْسَلَتْ إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَسْتَطِعْ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْ يَمْتَنِعَ حَتَّى يَجْتَمِعُوا عِنْدَهَا تَقُولُ لَهُمْ قَدْ عَرَفْتُمُ الَّذِي كَانَ مِنْ أَمْرِكُمْ، وَقَدْ وَلَدْتُ فَهُوَ ابْنُكَ يَا فُلاَنُ. تُسَمِّي مَنْ أَحَبَّتْ بِاسْمِهِ، فَيَلْحَقُ بِهِ وَلَدُهَا، وَلاَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَمْتَنِعَ مِنْهُ الرَّجُلُ. وَالنِّكَاحُ الرَّابِعِ يَجْتَمِعُ النَّاسُ الْكَثِيرُ فَيَدْخُلُونَ عَلَى الْمَرْأَةِ لاَ تَمْتَنِعُ مِمَّنْ جَاءَهَا وَهُنَّ الْبَغَايَا كُنَّ يَنْصِبْنَ عَلَى أَبْوَابِهِنَّ رَايَاتٍ تَكُونُ عَلَمًا فَمَنْ أَرَادَهُنَّ دَخَلَ عَلَيْهِنَّ، فَإِذَا حَمَلَتْ إِحْدَاهُنَّ وَوَضَعَتْ حَمْلَهَا جُمِعُوا لَهَا وَدَعَوْا لَهُمُ الْقَافَةَ ثُمَّ أَلْحَقُوا وَلَدَهَا بِالَّذِي يَرَوْنَ فَالْتَاطَ بِهِ، وَدُعِيَ ابْنَهُ لاَ يَمْتَنِعُ مِنْ ذَلِكَ ..... فَلَمَّا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ هَدَمَ نِكَاحَ الْجَاهِلِيَّةِ كُلَّهُ، إِلاَّ نِكَاحَ النَّاسِ الْيَوْمَ. (رواه البخارى)
نکاح و ازدواج اور اس کے متعلقات: مرد عورت کے جوڑ و ملاپ اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کے بارے میں زمانہ جاہلیت کے طریقے اور ضابطے
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے (انہوں نے بیان فرمایا) کہ زمانہ جاہلیت میں نکاح (یعنی مرد و عورت کے جوڑ ملاپ اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد سے متعلق) چار طریقے رائج تھے۔ ان میں سے ایک طریقہ تو وہ تھا جو (اصولی طور پر) آج بھی رواج میں ہے کہ ایک آدمی کی طرف سے دوسرے آدمی کو اس کی بیٹی یا اس کی زیر ولایت لڑکی کے لئے نکاح کا پیام دیا جاتا ہے۔ پھر وہ مناسب مہر مقرر کر کے اس لڑکی کا نکاح اس آدمی سے کر دیتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ کسی آدمی کی بیوی جب حیض سے پاک ہوتی (اس وقت عورت میں حاملہ ہونے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے) تو وہ (کسی بڑے شان والے آدمی کے بارے میں) خود اپنی بیوی سے کہہ دیتا کہ تو اس آدمی کو بلا کر اس سے نیوگ کر لے (یعنی اس سے تعلق قائم کر لے، اور اس کی صحبت سے حمل حاص ہونے کی کوشش کر) اور پھر وہ شوہر اپنی بیوی سے خود اس وقت تک الگ رہتا جب تک کہ اس دوسرے آدمی سے حمل قرار پاتا، پھر جب اس کے حمل کے آثار ظاہر ہو جاتے تو اس کے بعد یہ شوہر حسبِ خواہش اپنی بیوی سے صحبت کرتا، اور یہ سب کچھ اس غرض سے کرتا تا کہ لڑکا نجیب (بڑی شان والا) پیدا ہو، اور اس طریقہ کو "نکاح استبضاع" کہا جاتا تھا۔ (1) اور ایک اور (تیسرا) طریقہ یہ تھا کہ چند آدمیوں کی ٹولی (روایت میں "رھط" کا لفظ ہے جو دس سے کم کے لئے بولا جاتا ہے) ایک عورت کے پاس پہنچتی اور ان میں سے ہر ایک اس سے صحبت کرتا (اور یہ سب باہمی رضامندی سے ہوتا) پھر اگر وہ عورت حاملہ ہو جاتی اور بچہ ہو جاتا تو چند روز کے بعد وہ ان سب آدمیوں کو بلواتی (اور دستور کے مطابق) کسی کے لئے بھی اس کی گنجائش نہ ہوتی کہ وہ نہ آئے۔ اس لئے سب ہی پہنچ جاتے تو وہ کہتی کہ جو کچھ ہوا تھا وہ تمہیں معلوم ہے اور (اس کے نتیجہ میں) میرے یہ بچہ پیدا ہوا اور پھر وہ ان مٰں سے جس کو چاہتی نامزد کر کے کہتی اے فلانے یہ تیرا لڑکا ہے۔ پھر وہ لڑکا اسی کا مان لیا جاتا تھا اور وہ آدمی انکار نہیں کر سکتا تھا۔ (یہ تیسرا طریقہ تھا) اور چوتھا طریقہ یہ تھا کہ ایک عورت سے بہت سے لوگوں کا جنسی تعلق ہوتا۔ کسی کے لئے کوئی روک ٹوک نہ ہوتی، یہ پیشہ ور لونڈیاں ہوتی تھیں، ان کے گھروں کے دروازے پر بطور علامت کے ایک نشان نصب ہوتا تھا جو کوئی بھی چاہتا ان کے پاس پہنچ جاتا، تو جب ان میں سے کسی کو حمل رہ جاتا اور پھر بچہ پیدا ہوتا تو اس سے تعلق رکھنے والے یہ سب لوگ جمع ہو جاتے اور قیافہ شناسی کے ماہرین بلائے جاتے، پھر وہ (اپنی قیافہ شناسی سے) اس بچہ کو جس کے نطفہ سے سمجھتے اسی کا لڑکا قرار دے دیتے اور بس وہ اس سے چپک جاتا۔ اور اسی کا بیٹا کہا جاتا، وہ اس سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ (ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے زمانہ جاہلیت کے یہ سب طریقے بیان کرنے کے بعد فرمایا) پھر جب حضرت محمدﷺ اللہ کی طرف سے دینِ حق کے ساتھ مبعوث ہوئے تو آپ ﷺ نے جاہلیت کے ان سب (شرمناک اور حیاسوز) مروج طریقوں کو یکسر مٹا دیا۔ اور نکاح و شادی کا بس وہی (پاکیزہ) طریقہ رہ گیا جو اب جاری ہے۔ (صحیح بخاری)

تشریح
بسم اللہ الرحمن الرحیم نکاح و ازدواج اور اس کے متعلقات نکاح اور شادی کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عربوں میں مرد و عورت کے باہمی تعلق اور اولاد سے متعلق کئی طریقے اور ضابطے رائج تھے، ان میں سے بعض نہایت گندے اور شرمناک تھے، ایک طریقہ اصولی طور پر صحیح اور شریفانہ تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح فرما کر بس اسی کو باقی رکھا اور دوسرے سارے طریقے یکسر ختم فرما دئیے اور ان کو سنگین گناہ اور جرم قرار دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے طرزِ عمل اور ارشادات سے نکاح و شادی کا جو عمومی طریقہ مقرر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ مرد کی طرف سے عورت کے اولیاء اور سرپرستوں کو پیام دیا جائے اور رشتہ کی طلب و استدعا کی جائے، وہ اگر رشتہ کو مناسب اور قرینِ مصلحت سمجھیں تو عورت کے عاقلہ بالغہ اور صاحب رائے ہونے کی صورت میں اس کی مرضی معلوم کر کے اور کم سن ہونے کی صورت میں اپنی مخلصانہ اور خیرخواہانہ صوابدید کے مطابق رشتہ منظور کر لیں اور نکاح کر دیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہی طریقہ فطرت و حکمت کے عین مطابق ہے۔ نکاح و شادی کی اصل ذمہ داریاں چونکہ منکوحہ عورت پر عائد ہوں گی اور وہی ساری عمر کے لئے ان کی پابند ہو گی اس لئے اس کی رائے اور رضامندی لینا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے، اور اس کے نفس کا اصل مختار خود اسی کو قرار دیا گیا ہے۔ ولی اور سرپرست کو حق نہیں ہے کہ اس کی مرضی کے خلاف کسی سے اس کا نکاح کر دے۔ اسی کے ساتھ عورت کے شرف نسوانیت کی رعایت سے ہدایت فرمائی گئی کہ معاملہ اولیاء اور سرپرستوں ہی کے ذریعہ طے ہو اور وہی عقد و نکاح کرنے والے ہوں۔ یہ بات عورت کے مقامِ شرف کے خلاف ہے کہ کسی کی بیعی بننے کا معاملہ وہ خود براہِ راست طے کرے اور خود سامنے آ کر اپنے کو کسی کے نکاح میں دے۔ علاوہ ازیں چونکہ کسی لڑکی کے نکاح کے کچھ اثرات اس کے خاندان پر بھی پڑتے ہیں اس وجہ سے بھی اولیاء (خاندانی بزرگوں) کو کسی درجہ میں دخیل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ویہ بھی حقیقت ہے کہ اگر سارا معاملہ عورت ہی کے ہاتھ میں دے دیا جائے اور اولیاء بےتعلق رہیں تو اس کا بہت زیادہ امکان ہے کہ بےچاری عورت دھوکا کھا جائے اور کسی کے دامِ فریب میں آ کر خود اپنے حق میں غلط فیصلہ کر لے، ان سب وجوہ کی بناء پر ضروری قرار دیا گیا ہے کہ (خاص استثنائی صورتوں کے علاوہ) نکاح و شادی اولیاء ہی کے ذریعہ ہو۔ نکاح و شادی کے سلسلہ میں ایک رہنمائی یہ بھی فرمائی گئی ہے کہ جس عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ ہو اگر دیکھی بھالی بالکل نہ ہو تو اگر وہ سکے تو پیام دینے سے پہلے ایک نظر دیکھ لیا جائے تا کہ بعد میں کوئی خدشہ پیدا نہ ہو۔ یہ مقصد ایک درجہ میں قابلِ اعتماد عورتوں کے دیکھنے سے بھی پورا ہو سکتا ہے۔ ایک ہدایت یہ بھی فرمائی گئی کہ اگر کسی عورت سے نکاح کے لئے کسی دوسرے مرد کی طرف سے پیام دیا جا چکا ہے تو جب تک اس کے لئے انکار نہ ہو جائے اور بات ٹوٹ نہ جائے اس کے لئے پیام نہ دیا جائے۔ اس کی حکمت ظاہر ہے۔ نکاح کے لئے یہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ خفیہ نہ ہو، کچھ لوگں کی موجودگی میں اعلانیہ ہو جو اس کے شاہد اور گواہ ہوں، بلکہ بہتر بتایا گیا ہے کہ مسجد میں ہو، اسی طرح نکاح کے موقعہ پر خطبہ بھی مسنون ہے۔ مرد کی طرف سے عورت کے لئے مہر کا نذرانہ بھی ضروری قرار دیا گیا ان سب امور اور نکاح کے دوسرے متعلقات سے متعلق احادیث ذیل میں پڑھئے! تشریح ..... حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی اس روایت سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کیسی گندگیوں اور تاریکیوں میں تھے، اور پھر آپ ﷺ کی ہدایت اور تعلیم و تربیت نے ان کو آسمانِ ہدایت کا چاند اور سورج بنا دیا۔ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَنَبِيِّكَ رَسُوْلِ الرَّحْمَةِ مُخْرِجِ النَّاسِ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِكَ وَبَارِكْ وَسَلِّمْ
Top