معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1674
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى» (رواه البخارى ومسلم)
ڈاڑھی مونچھ کے بالوں اور ظاہری ہیئت سے متعلق ہدایات
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: مونچھوں کو خوب باریک کرو اور ڈاڑھیاں چھوڑو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
دوسری بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگلے انبیاء و مرسلین کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ ڈاڑھیاں رکھتے اور مونچھیں باریک کراتے تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے، ڈاڑھی رجولیت کی علامت اور وقارکی نشانی ہے۔ خود مغربی اقوام میں بھی جہاں ڈاڑھی نہ رکھنے کا عام رواج ہے) ڈاڑھی کو قابل احترام اور عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کاش! ہم مسلمان محسوس کریں کہ ڈاڑھی رکھنا ہمارے ہادی برحق ﷺ اور سارے نبیوں، رسولوں کی سنت اور ان کے طریقہ سے وابستگی کی علامت ہے، اور ڈاڑھی نہ رکھنا ان کے منکروں کا طریقہ ہے۔ اس حدیث میں صرف ڈاڑھی چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کہ ڈاڑھی کس حد تک چھوڑی جائے، بلکہ اس کے الفاظ سے شبہ ہو سکتا ہے کہ کسی صورت میں بھی اس کو قینچی نہ لگائی جائے اور کم نہ کرایا جائے۔ لیکن آگے متصلاً امام ترمذی کی روایت حضڑت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی جو حدیث درج کی جا رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ اپنی ریش مبارک (برابر اور ہموار کرنے کے لئے) اس کے عرض میں سے بھی اور طول میں سے بھی کچھ ترشوا دیتے تھے۔ اور مندرجہ بالا حدیث: "انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى" کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ ان کی ڈاڑھی کے جو بال ایک مشت سے زیادہ ہوتے وہ ان کو ترشوا دیتے تھے۔ بعض دوسرے صحابہ کا طرزِ عمل بھی یہی روایت کیا گیا ہے۔ ان سب روایات کی روشنی میں زیرِ تشریح حدیث: "انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى" کا مطلب اور مدعا یہ ہو گا کہ ڈاڑھی رکھی جائے، نہ منڈائی جائے نہ زیادہ کم کرائی جائے۔ ہمارے فقہا نے ایک مشت سے کم کرانے کو نادرست کہا ہے۔ ایک مشت کی مقدار کی یہ تحدید کسی حدیث میں نہیں ہے۔ غالباً اس کی بنیاد یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ سے ایک مشت تک رکھنا تو ثابت ہے، اس سے کم کرانا ثابت نہیں۔ واللہ اعلم۔
Top