معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1665
عَنِ ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا خَرَجَتِ الْحَرُورِيَّةُ أَتَيْتُ عَلِيًّا فَقَالَ: ائْتِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ فَلَبِسْتُ أَحْسَنَ مَا يَكُونُ مِنْ حُلَلِ الْيَمَنِ قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَجُلًا جَمِيلًا جَهِيرًا - قَالَ: فَأَتَيْتُهُمْ فَقَالُوا: مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا هَذِهِ الْحُلَّةُ قَالَ: مَا تَعِيبُونَ عَلَيَّ «لَقَدْ رَأَيْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ مَا يَكُونُ مِنَ الحُلَلِ» (رواه ابوداؤد)
رسول اللہ ﷺ کا لباس
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب خوارج کا ظہور ہوا، تو میں حضرت علی کے پاس آیا، انہوں نے مجھے سے فرمایا کہ: تم ان لوگوں کے (یعنی گروہِ خوارج کے) پاس جاؤ (اور ان کو سمجھانے اور ان پر حجت قائم کرنے کی کوشش کرو) ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے حسین و نفیس قسم کا ایک یمنی جوڑا پہنا۔ واقعہ کے راوی ابو زمیل کہتے ہیں کہ ابنِ عباس خود بہت حسین و جمیل تھے اور آواز بھی زوردار تھی۔ آگے ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں خوارج کی جماعت کے پاس پہنچا تو انہوں نے مرحبا کہہ کے میرا استقبال کیا اور ساتھ ہی (طنز و اعتراض کے طور پر) کہا کہ یہ بڑھیا جوڑا (جو آپ پہنے ہوئے ہیں) کیا ہے؟ (مطلب یہ تھا کہ بڑھیا قسم کا حسین جمیل لباس اسوہ نبوی ﷺ اور مقام تقویٰ کے خلاف ہے) (حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں) میں نے کہا کہ تم میرے اس اچھے لباس پر کیا اعتراض کرتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسین سے حسین جوڑا پہنے دیکھا ہے۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس بیان سے بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی کبھی اچھا نفیس لباس بھی استعمال فرمایا ہے۔ اس لئے ان خوارج کا یہ سمجھنا کہ اچھا اور عمدہ لباس پہننا طریقہ نبوی ﷺ یا مقامِ تقویٰ کے خلاف ہے ان کی جہالت تھی۔ ہاں اگر پہننے والے کا مقصد تفاخر و استکبار اور اپنی بڑائی کی نمائش ہو تو جیسا کہ احادیث سے معلوم ہو چکا ہے سخت درجے کی معصیت اور موجبِ غضب خداوندی ہے۔ لیکن اگر اظہارِ نعمت کی نیت سے یا کسی دوسری دینی مصلحت سے پہنا ئجائے تو نہ صرف جائز بلکہ باعث اجر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا پہننا اظہارِ نعمت کے لئے بھی تھا اور لانے والوں کی تطیب خاطر کے لئے بھی، اور بیان جواز کے لئے بھی۔
Top