معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1639
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهَا ثِيَابٌ رِقَاقٌ، فَأَعْرَضَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: «يَا أَسْمَاءُ، إِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا بَلَغَتِ الْمَحِيضَ لَمْ تَصْلُحْ أَنْ يُرَى مِنْهَا إِلَّا هَذَا وَهَذَا» وَأَشَارَ إِلَى وَجْهِهِ وَكَفَّيْهِ (رواه ابوداؤد)
عورتوں کے لئے زیادہ باریک لباس کی ممانعت
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ (میری بہن) اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو آپ ﷺ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور کہا کہ اسے اسماء عورت جب بلوغ کو پہنچ جائے تو درست نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورتوں کو ایسا باریک کپڑا پہننا جائز نہیں جس سے جسم نظر آئے۔ ہاں چہرہ اور ہاتھوں کا کھلا رہنا جائز ہے، یعنی باقی جسم کی طرح ان کو کپڑے سے چھپانا ضروری نہیں۔ یہاں ملحوظ رہے کہ اس حدیث میں عورت کے لئے ستر کا حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ حجاب (پردہ) کا حکم اس سے الگ ہے، اور وہ یہ ہے کہ بےضرورت باہر نہ گھومیں، اور اگر ضرورت اور کام سے باہر نکلیں تو پردہ میں نکلیں۔ ستر اور حجاب شریعت کے دو حکم ہیں اور ان کے حدود الگ الگ ہیں، بعض حضرات کو ان میں اشتباہ ہو جاتا ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ حضرت اسماءؓ کے حضور ﷺ کے سامنے آنے کے جس واقعہ کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے وہ حجاب (پردہ) کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔ کیوں کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد حضرت اسماءؓ اس طرح آپو کے سامنے نہیں آ سکتی تھیں۔ واللہ اعلم۔ امام مالکؒ نے موطا میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ ان کی بھتیجی حفصہ بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ان کے پاس آئیں اور وہ زیادہ باریک اوڑھنی (خمار) اوڑھے ہوئے تھیں، تو حضرت صدیقہ نے اس کو اتار کے پھاڑ دیا اور موٹے کپڑے کی خمار اوڑھا دی۔ ظاہر ہے حضرت صدیقہؓ کا یہ فعل رسول اللہ ﷺ ہی کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا۔
Top