معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1620
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ الشَّيْطَانَ يَحْضُرُ أَحَدَكُمْ عِنْدَ كُلِّ شَيْءٍ مِنْ شَأْنِهِ، حَتَّى يَحْضُرَهُ عِنْدَ طَعَامِهِ، فَإِذَا سَقَطَتْ مِنْ أَحَدِكُمُ اللُّقْمَةُ، فَلْيُمِطْ مَا كَانَ بِهَا مِنْ أَذًى، ثُمَّ لِيَأْكُلْهَا، وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ، فَإِذَا فَرَغَ فَلْيَلْعَقْ أَصَابِعَهُ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِهِ يَكُونُ الْبَرَكَةُ» (رواه مسلم)
گرا ہوا لقمہ بھی اُٹھا کر کھا لیا جائے
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: "تمہارے ہر کام کے وقت، یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی، شیطان تم میں سے ہر ایک کے ساتھ رہتا ہے، (لہذا جب کھانا کھاتے وقت)" کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اسے چاہئے کہ اس کو صاف کر کے کھالے اور شیطان کے لئے چھوڑ نہ دے۔ پھر جب کھانے سے فارغ ہو تو اپنی انگلیوں کو بھی چاٹ لے کیوں کہ وہ نہیں جانتا کہ کھانے کے کس جز میں خاص برکت ہے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
حدیث کے آخری حصہ میں تو کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ کر صاف کر لینے کی ہدایت فرمائی گئی ہے جس کے بارے میں ابھی اوپر عرض کیا جا چکا ہے۔ اور ابتدائی حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کھاتے وقت کسی کے ہاتھ سے لقمہ گر جائے تو اس کو مستغنی اور متکبر لوگوں کی طرح نہ چھوڑ دے، بلکہ ضرورت مند اور قدردان بندہ کی طرح اس کو اُٹھا لے، اور اگر نیچے گر جانے کی وجہ سے اس پر کچھ لگ گیا ہو تو صاف کر کے اس لقمہ کو کھا لے۔ اس میں مزید یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ کھانے کے وقت بھی شیطان ساتھ ہوتا ہے اگر گرا ہوا لقمہ چھوڑ دیا جائے گا تو وہ شیطان کے حصہ میں آئے گا۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے فرشتے اور شیاطین اللہ کی وہ مخلوق ہیں جو یقیناً اکثر اوقات میں ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں جو کچھ بتلایا ہے اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے علم سے بتلایا ہے اور وہ بالکل حق ہے اور آپ ﷺ کو کبھی کبھی ان کا اس طرح مشاہدہ بھی ہوتا تھا، جس طرح ہم اس دنیا کی مادی چیزوں کو دیکھتے ہیں (جیسا کہ بہت سے احادیث سے معلوم ہوتا ہے) اس لئے ایسی حدیثوں کو جن میں مثلاً کھانے کے وقت شیاطین کے ساتھ ہونے اور کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے تو اس میں شیاطین کے شریک ہو جانے یا گرے ہوئے لقمہ کا شیطان کا حصہ ہو جانے کا ذکر ہے تو ان حدیثوں کو مجاز پر محمول کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے "حجۃ اللہ البالغہ" میں یہ واقعہ بیان فرمایا ہے۔ کہ ایک دن ہمارے ایک دوست (شاگرد یا مرید) ہمارے ہاں آئے، ان کے لئے کھانا لایا گیا، وہ کھا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ سے ایک ٹکڑا گر گیا اور لڑھک کر زمین میں چلا گیا، انہوں نے اس کو اٹھا لینے کی کوشش کی اور اس کا پیچھا کیا مگر وہ ان سے اور دور ہوتا چلا گیا، یہاں تک کہ جو لوگ وہاں موجود تھے (اور اس تماشے کو دیکھ رہے تھے) انہیں اس پر تعجب ہوا، اور وہ صاحب جو کھانا کھا رہے تھے انہوں نے جدوجہد کر کے (آخر کار) اس کو پکڑ لیا اور نوالہ بنا لیا۔ چند روز کے بعد کسی آدمی پر ایک جنی شیطان مسلط ہو گیا اور اس آدمی کی زبان سے باتیں کیں اور (ہمارے اس مہمان دوست کا نام لے کر) یہ بھی کہا کہ فلاں آدمی کھانا کھا رہا تھا، میں اس کے پاس پہنچا، مجھے اس کا کھانا بہت اچھا معلوم ہوا مگر اس نے مجھے نہیں کھلایا۔ تو میں نے اس کے ہاتھ سے اُچک لیا (اور گرا دیا) لیکن اس نے مجھ سے پھر چھین لیا۔ اسی سلسلہ میں دوسرا واقعہ اپنے گھر ہی کا شاہ صاحبؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ، ایک دفعہ ہمارے گھر کے کچھ لوگ گاجریں کھا رہے تھے۔ ایک گاجر ان میں سے گر گئی، ایک آدمی اس پر جھپٹا اور اس نے جلدی سے اُٹھا کر اس کو کھا لیا، تھوڑی ہی دیر بعد اس کے پیٹ اور سینہ میں سخت درد اُٹھا، پھر اس پر شیطان یعنی جن کا اثر ہو گیا تو اس نے اس آدمی کی زبان میں بتایا کہ اس آدمی نے میری گاجر اُٹھا کر کھا لی تھی۔ یہ واقعات بیان فرمانے کے بعد شاہ صاحبؒ نے لکھا ہے کہ: اس طرح کے واقعات ہم نے بکثرت سنے بھی ہیں اور ان سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ یہ احادیث (جن میں کھانے پینے کے سلسلہ میں شیاطین کی شرکت اور ان کے افعال و تصرفات کا ذکر آیا ہے) مجاز کے قبیلہ سے نہیں ہیں، بلکہ جو کچھ بتلایا گیا ہے وہی حقیقت ہے۔ واللہ اعلم۔
Top