معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1615
عَنْ وَحْشِيُّ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: إِنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَأْكُلُ وَلَا نَشْبَعُ، قَالَ: «لَعَلَّكُمْ تَفْتَرِقُونَ؟» قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: «فَاجْتَمِعُوا عَلَى طَعَامِكُمْ، وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ يُبَارَكْ لَكُمْ فِيهِ» (رواه ابوداؤد)
ساتھ کھانے میں برکت ہے
حضرت وحشی بن حرب ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے بعض صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارا حال یہ ہے کہ کھانا کھاتے ہیں اور آسودگی حاصل نہیں ہوتی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ: شاید تم لوگ الگ الگ کھاتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، الگ الگ کھاتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا کہ: تم کھانے پر ایک ساتھ بیٹھا کرو! اور اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ کر کے (اجتماعی طور پر) کھایا کرو، تمہارے واسطے اس کھانے میں برکت ہو گی (اور طبیعت کو سیری حاصل ہو جایا کرے گی)۔ (سنن ابی داؤد)

تشریح
اجتماعی طور پر کھانے کی یہ برکت جس کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اس کا ہر ایک تجربہ کر سکتا ہے بشرطیکہ کھانے والوں میں ایثار کی صفت ہو، جو ہر سچے مسلمان میں ہونی چاہئے یعنی ہر ایک یہ چاہے کہ میرے دوسرے ساتھی اچھا کھا لیں اور اچھی طرح کھا لیں، اگر کھانے والوں میں یہ بات نہ ہو تو پھر اس برکت کا کوئی استحقاق نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں اندیشہ ہے کہ اکثر و بیشتر تجربہ اس کے برعکس ہو۔ آگے درج ہونے والی حدیث کو بھی اسی روشنی میں سمجھنا چاہئے۔
Top