معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1595
عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشَرَةً عَاصِرَهَا وَمُعْتَصِرَهَا وَشَارِبَهَا وَسَاقِيَهَا وَحَامِلَهَا وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ وَبَائِعَهَا وَمُبْتَاعَهَا وَوَاهِبَهَا وَآكِلَ ثَمَنِهَا. (رواه الترمذى)
شرابیوں کے واسطے سخت ترین وعید
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شراب کے سلسلے میں (اس سے تعلق رکھنے والے) دس آدمیوں پر لعنت کی۔ ایک (انگور وغیرہ) شراب نچوڑنے والے پر (اگرچہ کسی دوسرے کے لیے نچوڑے) اور خود اپنے واسطے نچوڑنے والے پر، اور اس کے پینے والے پر اور ساقی یعنی پلانے والے پر اور اس پر جو شراب کو لے کر جائے اور اس پر جس کے لئے وہ لے جائی جائے اور اس کے بیچنے والے اور خریدنے والے پر اور اس پر جو کسی چوسرے کو ہدیہ اور تحفہ میں شراب دے اور اس پر جو اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت کھائے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
لعنت کا مطلب ہے خدا کی رحمت اور اس کی نگاہِ کرم سے محرومی کی بد دعا، اس بناء پر حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص شراب سے کچھ بھی تعلق رکھے، خواہ اس کا بنانے والا یا بنوانے والا ہو، یا پینے والا یا پلانے والا ہو، یا خریدنے والا یا بیچنے والا ہو۔ کسی کو ہبہ کرنے والا یا اس کو کسی کے پاس پہنچانے والا ہو، ان سب کے لئے رسول اللہ ﷺ نے بددعا کی کہ وہ خدا کی رحمت اور اس کی نگاہِ کرم سے محروم ہیں۔ "قریب قریب اسی مضمون کی حدیث مسند احمد اور سنن ابی داؤد وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عمرؓسے بھی مروی ہے"۔ رسول اللہ ﷺ کے اس قسم کے ارشادات نے صحابہ کرامؓ کو شراب کے بارے میں کتنا شدت پسند بنا دیا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے انگور کے باغات تھے، ایک دفعہ ان میں بہت پھل آیا تو باغوں کے اس محافظ نے جو ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کے لئے ان کی طرف سے مقرر تھا (اور ان کا معتمد ملازم تھا) ان کو خط لکھا کہ اس فصل میں انگور کی پیداوار بہت ہے اور مجھے ان کے ضائع اور برباد ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ تو آپ کی رائے ہو تو میں انگوروں سے شیرہ حاصل کر کے محفوظ کر لوں؟ حضرت نے اس کے جواب میں خط لکھا۔ إِذَا جَاءَكَ كِتَابِي، فَاعْتَزِلْ ضَيْعَتِي، فَوَاللَّهِ لَا أَئْتَمِنُكَ عَلَى شَيْءٍ بَعْدَهُ أَبَدًا» (1) (جب تمہیں میرا یہ خط ملے تو میری زمین اور باغات سے الگ اور بےتعلق ہو جاؤ۔ خدا کی قسم! میں اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں بھی تم پر اعتماد نہیں کر سکتا)۔ بہرحال حضرت سعد نے اس محافظ اور باغبان کو صرف اس بناء پر الگ اور ملازمت سے برطرف کر دیا کہ اس نے انگور سے شیرہ حاصل کر کے اس کو محفوظ کرنے کے بارے میں سوچا تھا جس سے شراب بنائی جا سکتی ہے۔
Top