معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1585
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حُرِّمَتِ الْخَمْرُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَأْكُلُونَ الْمَيْسِرَ، فَسَأَلُوهُ عَنْهُمَا، فَنَزَلَ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ الْآيَةِ، فَقَالَ النَّاسُ: مَا حَرَّمَ عَلَيْنَا، وَكَانُوا يَشْرَبُونَ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمٌ صَلَّى رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، بِأَصْحَابِهِ وَخَلَطَ فِي قِرَاءَتِهِ، فَنَزَلَتْ آيَةٌ أَغْلَظَ مِنْهَا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى الاية، وَكَانَوْا يَشْرَبُونَ حَتَّى نَزَلَتْ أَغْلَظُ مِنْهَا: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ الاية، قَالُوا: انْتَهَيْنَا رَبَّنَا، فَقَالُوْا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَاسٌ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَاتُوا عَلَى فُرُشِهِمْ كَانُوا يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ، وَيَأْكُلُونَ الْمَيْسِرَ، وَقَدْ جَعَلَهُ اللَّهُ رِجْسًا، مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ، فَنَزَلَ: {لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا} الْآيَةِ. (رواه احمد)
مشروبات کے احکام: شراب کی حرمت کا حکم
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ شراب کی ممانعت (تدریجاً) تین دفعہ میں کی گئی ہے (جس کی تفصیل یہ ہے) کہ رسول اللہ ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اس زمانہ میں اہل مدینہ شراب پیا کرتے تھے اور جوئے سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے، تو ان دونوں چیزوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا (کہ یہ جائز ہیں یا ناجائز؟) دریافت کرنے کی وجہ غالباً یہ ہو گی کہ خود ان میں سے صالح طبیعت رکھنے والوں نے محسوس کیا ہو گا کہ اسلام کی عام تعلیمات اور اس کے پاکیزہ مزاج سے یہ دونوں چیزیں میل نہیں کھاتیں۔ واللہ اعلم۔ (ان کے اس سوال کے جواب میں سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی)۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا اے پیغمبر! یہ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ انہیں بتا دیجئے کہ ان دونوں چیزوں میں گناہ ہے بہت اور فائدے بھی ہیں لوگوں کے لئے اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔ تو کچھ لوگوں نے کہا کہ (اس آیت میں) شراب اور جوئے کو قطعیت کے ساتھ حرام قرار نہیں دیا گیا ہے، تو وہ لوگ (گنجائش سمجھتے ہوئے) اس کے بعد بھی پیتے رہے، یہاں تک کہ ایک دن یہ واقعہ پیش آیا کہ مہاجرین میں سے ایک صاحب اپے کچھ ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے (اور امامت کر رہے تھے اور نشہ میں تھے) انہوں نے قرأت میں کچھ گڑ بڑ کر دی (اور کچھ کا کچھ پڑھ گئے) تو شراب کی ممانعت کے سلسلہ میں یہ دوسری آیت نازل ہوئی جو پہلی آیت کے مقابلہ میں زیادہ سخت تھی۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ اے ایمان والو! ایسی حالت میں نماز کے پاس بھی نہ جاؤ جب کہ تم نشہ میں ہو تا وقتیکہ (تمہیں ایسا ہوش نہ ہو) کہ تمہیں معلوم ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ مگر کچھ لوگ (اس کے بعد بھی گنجائش سمجھتے ہوئے) پیتے رہے (ہاں جیسا کہ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے اس کا اہتمام کرنے لگے کہ نماز کے قریب نہیں پیتے تھے) تو سورہ مائدہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں جو پہلی دونوں آیتوں کے مقابلہ میں زیادہ سخت اور صاف صریح تھیں۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ اے ایمان والو! بلاشبہ یہ شراب اور جوا اور بت پانسے (جو ایک خاص قسم کے جوئے میں استعمال ہوتے تھے، یہ سب چیزیں) گندی اور ناپاک ہیں اور شیطانی اعمال میں سے ہیں لہذا ان سے کلی پرہیز کرو، پھر تم امید کر سکتے ہو کہ فلاح یاب ہو جاؤ، شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ تمہیں شراب اور جوئے میں پھانس کر تمہارے درمیان بغض و عداوت پید کر دے (اور تم کو آپس میں لڑا دے) اور اللہ کی یاد اور نماز جیسی نعمت سے (جو بارگاہ خداوندی کی حضوری ہے) تم کو روک دے تو کیا تم (شراب اور جوئے وغیرہ سے) باز آؤ گے؟ جب یہ آیتیں نازل ہوئیں تو ان لوگوں نے کہا "نهينا ربنا" (اے ہمارے پروردگار! ہم باز آئے اور اب ہم نے اس کو بالکل چھوڑ دیا) پھر ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ہمارے ان لوگوں کا کیا انجام ہو گا جو راہِ خدا میں شہید ہو چکے ہیں یا اپنے بستروں پر (بیمارپڑ کر) انتقال کر چکے ہیں اور وہ شراب پیا کرتے اور جوئے سے حاصل کیا ہوا مال کھایا کرتے تھے۔ اور اب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ناپاک اور شیطانی عمل قرار دیا ہے (تو ہمارے جو بھائی ان دونوں میں ملوث تھے اور اسی حال میں انتقال کر گئے یا راہِ خدا میں شہید ہو گئے، تو آخرت میں ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا؟) تو اس کے جواب میں بعد والی یہ آیت نازل ہوئی۔ لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوا وَّآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ الْآيَةِ ان صاحب ایمان اور نیکوکار بندوں پر کوئی گناہ (اور مواخذہ) نہیں ہے ان کے کھانے پینے پر، جب کہ ان کا حال یہ ہو کہ وہ خدا سے ڈر کر پرہیزگاری کی زندگی گزارتے ہوں اور دل سے مانتے ہوں اور اعمال صالحہ کرتے ہوں۔ الخ (مسند احمد)ھ

تشریح
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، کھانے پینے کی چیزوں میں حلت و حرمت کے بارہ میں شریعت کا بنیادی اصول وہی ہے جسے قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ "وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ" اس بناء پر مشروبات میں بھی جو طیبات ہیں یعنی پاکیزہ اور مرغوب و خوشگوار اور نفع بخش چیزیں مثلا حلال چوپایوں کا دودھ، پھلوں کا رس، اچھے سے اچھے شربت، نفیس عرقیات وغیرہ یہ سب حلال قرار دئیے گئے ہیں۔ اور ان کے برعکس جو مشروبات "خبیث" اور انسانیت کے لئے مضر ہیں وہ حرام قرار دئیے گئے ہیں۔ پھر جس طرح کھانے کی بعض ان چیزوں کی حرمت کا اعلان اہتمام اور خصوصیت سے قرآن پاک میں بھی کیا گیا ہے جو اگلی شریعتوں میں بھی حرام قرار دی گئی تھیں مگر ان کو بعض طبقے کھاتے تھے جیسے کہ مردار جانور اور خنزیر وغیرہ، اسی طرح مشروبات میں خمر یعنی شراب کی حرمت کا اعلان بھی خاص اہتمام سے قرآن پاک میں بھی کیا گیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی اس کے بارے میں غیر معمولی اہتمام فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اس سلسلہ میں نہایت سخت رویہ آپ نے اختیار فرمایا۔ جیسا کہ آگے درج ہونے والی احادیث سے معلوم ہو گا۔ شراب کی حرمت کا حکم شراب کے حرام قرار دئیے جانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے استعمال سے آدمی کم از کم کچھ دیر کے لئے اس جوہر عقل و تفکر سے محروم ہو کر جو اس کے پروردگار کا خاص الخاص عطیہ اور معرفت الہی کا وسیلہ ہے، ان حیوانوں کی صف میں آ جاتا ہے جن کو ان کے پیدا کرنے والے نے عقل و تمیز کی نعمت اور اپنی کاص معرفت کی صلاحیت عطا نہیں فرمائی ہے۔ اور یہ انسان کا اپنے اوپر بڑے سے بڑا ظلم اور اپنے پروردگار کی انتہائی ناشکری ہے۔ اس کے علاوہ نشہ کی حالت میں بسا اوقات اس سے انتہائی نامناسب اور شرمناک حرکتیں سرزد ہوتی ہیں اور وہ شیطان کا کھلونا بن جاتا ہے، علاوہ ازیں شراب نوشی کے نتیجہ میں بعض اوقات بڑے دور رس اور تباہ کن فسادات پرپا ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے تمام آسمانی شریعتوں میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے اور ہر دور کے خدا پرست مصلحوں اور روحانیت پسندوں نے اس سے پرہیز کیا ہے اور اس کے خلاف جدو جہد کی ہے۔ آگے جو احادیث شراب کے بارے میں درج ہوں گی ان کا یہ پس منظر ناظرین کے ذہن میں رہنا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت اور غالبا اس کے بہت پہلے سے عربوں میں خاص کر اہل مدینہ میں شراب کا بےحد رواج تھا، گھر گھر شراب بنتی تھی اور پی جاتی تھی اس سے وہ نشاط و سرور بھی حاصل کیا جاتا تھا جس کے لئے عموما پینے والے اس کو پیتے ہیں، اس کے علاوہ اس ماحول میں شراب نوشی کو ایک اخلاقی عظمت و فضیلت کا مقام بھی حاصل تھا وہاں کا عام رواج یہ تھا کہ دولت مند لوگ شراب پی کر نشہ کی حالت میں خوب داد و دہش کرتے اور مال لٹاتے تھے جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا اور اسی وجہ سے شراب نہ پینا یا کم پینا بخل و کنجوسی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یہی حال جوئے کو بھی تھا وہاں جوئے کے کچھ خاص طریقے رائج تھے اور حوصلہ مند اور دریا دل لوگ ہی وہ جوا کھیلتے تھے اور جو کچھ جیتتے تھے وہ غربا اور حاجت مندوں میں لٹا دیتے تھے۔ اس لئے جوا بھی امیروں کا ایک معزز کھیل تھا جس سے غریبوں کا بھلا ہوتا تھا۔ زمانہ جاہلیت کی روایات اور شاعری میں اس کا پورا سراغ ملتا ہے۔ شراب اور جوئے میں نافعیت کا غالباً یہی وہ خاص پہلو تھا جس کی طرف اشارہ سورہ بقرہ کی اس آیت میں بھی کیا گیا ہے جو شراب اور جوئے کے بارے میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ بہرحال شراب کا چونکہ وہاں عام رواج تھا اور گویا وہ ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور اس کے وہ بری طرح عادی تھے اور ان کی نگاہ میں اس کو ایک عظمت بھی حاصل تھی اس لئے اس کی ممانعت کے بارے میں ابتداء تو نرم تدریجی رویہ اختیار کیا گیا لیکن جب قوم میں اس کی صلاحیت پیدا ہو گئی کہ قطعی حرمت کا اعلان ہو جانے پر وہ اس کو یکلخت چھوڑ دے تو پھر اتنا سخت رویہ اختیار کیا گیا کہ جس قسم کے برتنوں میں شراب پینے کا رواج تھا، سرے سے ان برتنوں ہی کے استعمال کرنے کی ممانعت کر دی گئی۔ اسی طرح کے بعض اور بھی انتہائی سخت احکام جاری کئے گئے جن کا مقصد صرف یہ تھا کہ اہل ایمان کے دلوں میں اس ام الخبائث سے سخت نفرت پیدا ہو جائے، چنانچہ جب یہ بات پیدا ہو گئی تو وہ سخت احکام واپس لے لئے گئے۔ اس تمہید کے بعد شراب کی حرمت سے متعلق آگے درج ہونے والی حدیثیں پڑھئے: تشریح ..... حدیث کی تشریح ترجمہ کے ضمن میں جابجا کر دی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ کی اس حدیث سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ شراب کی حرمت کے بارے میں ابتداء تدریجی رویہ اختیار کیا گیا اور آخر میں سورہ مائدہ کی آیت میں اس کے بارے میں "رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ" فرما کر اس کی قطعی حرمت کا اعلان فرما دیا گیا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ۸؁ھ میں نازل ہوئی۔
Top