معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1582
عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: غَزَوْتُ جَيْشَ الْخَبَطِ وَأُمِّرَ أَبُو عُبَيْدَةَ، فَجُعْنَا جُوعًا شَدِيدًا فَأَلْقَى الْبَحْرُ حُوتًا مَيِّتًا، لَمْ نَرَ مِثْلَهُ، يُقَالُ لَهُ الْعَنْبَرُ، فَأَكَلْنَا مِنْهَا نِصْفَ شَهْرٍ، فَأَخَذَ أَبُو عُبَيْدَةَ عَظْمًا مِنْ عِظَامِهِ فَمَرَّ الرَّاكِبُ تَحْتَهُ. فَلَمَّا قَدِمْنَا ذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كُلُوا رِزْقًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ، أَطْعِمُونَا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ. قَالَ: فَأَرْسَلْنَا اِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَهُ. (رواه البخارى ومسلم)
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ میں "جیش الخبط" کے جہاد میں شریک تھا اور ابو عبیدہ اس لشکر کے امیر بنائے گئے تھے (غذا کا کچھ سامان نہ ہونے کی وجہ سے اس سفر جہاد میں) ہم سخت بھوک میں گرفتار ہو گئے۔ تو سمندر نے ایک مچھلی پھینکی یہ مر چکی تھی ہم نے ایسی (یعنی اتنی بڑی)مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی، اس کا نام عنبر بتلایا جاتا تھا، ہم سب نے (یعنی پورے لشکر نے) س کو آدھے مہینہ تک کھایا، پھر ابو عبیدہ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی (غالبا پسلی) اٹھا کے کھڑی کی تو اونٹ کا سوار اس کے نیچے سے نکل گیا، پھر جب ہم سفر سے مدینہ واپس آئے آئے تو ہم نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا (اور پوچھا کہ ہمارا اس کو کھانا درست تھا یا نہیں) تو آپ ﷺ نے فرمایا کھاؤ، اللہ تعالیٰ کا عطیہ (اور تحفہ) جو اللہ نے تمہارے واسطے نکالا تھا، اور اگر اس میں سے کچھ تمہارے ساتھ ہو تو ہمیں بھی کھلاؤ (جابر کہتے ہیں کہ) ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کے لئے بھی بھیجا تو آپ ﷺ نے اس کو تناول فرمایا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے وہ ۶؁ھ کی ایک جہادی مہم کا واقعہ ہے، رسول اللہ ﷺ نے قریبا تین سو مجاہدین کا ایک لشکر روانہ فرمایا تھا، اس کا امیر حضرت ابو عبیدہ کو بنایا گیا تھا پورے لشکر کے کھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے صرف ایک بورا کھجوریں حضرت ابو عبیدہ کو دی تھیں، اس وقت اتنا ہی بندوبست ہو سکا تھا، ابو داؤد وغیرہ کی اس واقعہ کی روایت میں ہے کہ ابو عبیدہ روزانہ ہر لشکری کو اس بورے میں سے صرف ایک کھجور دیتے تھے،اور یہ اللہ کے سپاہی اسی پر گزارہ کرتے تھے، خود اس لشکر کے بعض حضرات نے بیان کیا ہے کہ ہم اس ایک کھجور کو منہ میں دیر تک رکھ کر اس طرح چوستے تھے جس طرح ننھے بچے چوستے ہیں اور اوپر سے پانی پی لیتے تھے، بس یہی دن بھر کے لئے کافی ہو جاتا تھا۔ پھر وہ کھجوریں ختم ہو گئیں تو درختوں سے پتے جھاڑے اور انہیں پانی سے تر کر کے کھانے لگے اس سے ہمارے منہ زخمی ہو گئے اور سوج گئے، اس لشکر کو "جیش الخبط" کے نام سے اسی لئے یاد کیا جاتا ہے۔ خبط کے معنی درخت سے پتے جھاڑنے کے ہیں۔ ابو داؤد وغیرہ کی روایت میں حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ اسی حال میں ہم سمندر کے کنارے سے قریب چل رہے تھے کہ ہمیں ایک ٹیلہ یا ایک پہاڑی سی نظر پڑی، قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ سمندر کا پھینکا ہوا ایک مچھلی نماز جانور ہے اور مرا ہوا ہے، حضرت ابو عبیدہ کو اس کے حلال ہونے کے بارے میں شک ہوا، بعد میں انہوں نے سوچا کہ ہم اللہ کے کام کے لئے نکلے ہیں اور اس کے رسول کے بھیجے ہوئے ہیں اور کھانے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ہماری غذا کا ساما فراہم کیا ہے، پھر اس بارے میں انہیں شرح صدر ہو گیا تو انہوں نے لشکر کو اس کے کھانے کی اجازت دے دی۔ اور صحیحین کی اس روایت کے بیان کے مطابق پورے لشکر نے اس کو آدھے مہینے تک کھایا۔ اور دوسری بعض روایات میں ہے کہ اس کو ایک مہینہ تک کھایا گیا۔ اس عاجز کے نزدیک ان دونوں باتوں میں مطابقت اس طرح ہے کہ لشکر کا قیام آدھے مہینہ کے قریب اسی علاقہ میں رہا اور ان دنوں میں وہی مچھلی خوب فراوانی سے کھائی جاتی رہی، اس کے بعد واپسی ہوئی اور قریبا آدھے مہینہ میں مدینہ پہنچے، ان دنوں میں بھی اسی سے کچھ کام چلتا رہا، تو جن روایات میں آدھے مہینہ تک کھائے جانے کا ذکر ہے ان میں صرف سفر واپسی ہے پہلے دنوں کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ پورا لشکر فراوانی سے اس کو کھاتا رہا، اور جن روایات میں ایک مہینہ تک کھانے کا ذکر کیا گیا ان میں واپسی کا زمانہ بھی شامل کر لیا گیا ہے، کیوں کہ ان دنوں میں بھی اس کو بطور غذا کے کچھ نہ کچھ استعمال کیا جاتا رہا۔ واللہ اعلم۔ حدیث کے آخر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مدینہ کی واپسی پر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا اور غالبا ابو عبیدہ کے شک و شبہ کا ذکر آیا، تو آپ ﷺ نے فرما کر کہ "كُلُوا رِزْقًا أَخْرَجَهُ اللَّهُ" اطمینان دلایا کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص عطیہ اور تحفہ تھا جو اس نے تمہارے ہی واسطے سمندر سے نکلوایا تھا، ایسی چیز کو تو بڑی قدر اور شکر کے ساتھ کھانا چاہئے۔ آخر میں آپ ﷺ نے ان لوگوں کا دل خوش کرنے کے لئے اور اس عطیہ ربانی کی قدردانی کے اظہار کے لیے یہ بھی فرمایا: "وَأَطْعِمُونَا إِنْ كَانَ مَعَكُمْ" (یعنی اگر اس میں سے کچھ ساتھ لائے ہو تو ہم کو بھی کھلاؤ) چنانچہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا اور آپ ﷺ نے تناول فرمایا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ سمندر کی اتنی بڑی مچھلی، جو ظاہر ہے کہ ایک عجیب و غریب مخلوق معلوم ہوتی ہو گی حلال طیب ہے۔ حدیث میں ہے کہ اس مچھلی کو عنبر کہا جاتا ہے، بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ عنبر جو بعض خاص علاقوں میں سمندر کے کنارے ملتا ہے اس مچھلی سے نکلتا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top