معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1573
عَنِ ابْنَ عَبَّاسٍأَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ، وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا، فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَنِ الضَّبِّ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الوَلِيدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «لاَ، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ» قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيَّ. (رواه البخارى ومسلم)
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ خالد بن ولید نے ان سے بیان کیا کہ میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ام المومنین میمونہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا (راوی نے بتایا کہ حضرت میمونہ خالد بن الولید اور عبداللہ بن عباس کی بھی حقیقی خالہ تھیں، آگے حضرت خالد کا بیان ہے کہ) میں نے دیکھا کہ ان کے (یعنی ہماری خالہ میمونہ کے) پاس ایک بھنی ہوئی گوہ ہے، وہ انہوں نے کھانے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی طرف بڑھا دی، تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا، (جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اس کو کھانا نہیں چاہتے) تو خالد بن الولید نے (جو کھانے میں شریک تھے) پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حرام ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں (یعنی حرام تو نہیں ہے) لیکن یہ ہمارے علاقہ میں (یعنی مکہ کی سرزمین میں) ہوتی نہیں تھی اس لئے میری طبیعت اس کو قبول نہیں کرتی، خالد نے بیان کیا کہ (رسول اللہ ﷺ کا یہ جواب سن کر) میں نے اس کو اپنی طرف سرکا لیا اور کھاتا رہا، اور رسول اللہ ﷺ دیکھتے رہے (یعنی آپ ﷺ نے مجھے کھاتا دیکھا اور منع نہیں فرمایا)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
جو حضرات ائمہ گوہ کی حلت کے قائل ہیں ان کی سب سے بڑی دلیل یہی حدیث ہے، اس کے علاوہ بھی بعض حدیثیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گوہ کا کھانا حلال ہے، امام ابو حنیفہؒ کا خیال یہ ہے کہ یہ حدیثیں غالباً اس زمانہ کی ہیں جب کہ اس کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا، اور جب تک کسی چیز کی حرمت کا حکم نہ آئے وہ مباح ہے، بہرحال امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ممانعت کی حدیث کو جو اوپر درج ہو چکی ہے، زمانہ کے لحاظ سے موخر اور ناسخ سمجھتے ہیں۔ علاوہ ازیں ابھی کچھ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ امام صاحب کا عام دستور اور رویہ یہ ہے کہ جب کسی چیز کی حلت اور حرمت کے بارے میں اشتباہ پیدا ہو جائے تو وہ ازراہِ احتیاط حرمت کے قول کو ترجیح دیتے ہیں۔
Top