معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1564
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَأْكُلُونَ أَشْيَاءَ وَيَتْرُكُونَ أَشْيَاءَ تَقَذُّرًا،» فَبَعَثَ اللَّهُ نَبِيَّهُ، وَأَنْزَلَ كِتَابَهُ، وَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، فَمَا أَحَلَّ فَهُوَ حَلَالٌ، وَمَا حَرَّمَ فَهُوَ حَرَامٌ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ عَفْوٌ " وَتَلَا {قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ (رواه ابوداؤد)
کھانے پینے کے احکام و آداب
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اہل جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے عرب) کچھ چیزوں کو (طبعی خواہش اور رغبت کی بناء پر) کھاتے تھے اور کچھ چیزوں کو (طبعی نفرت اور گھن کی بنیاد پر) نہیں کھاتے تھے، (اسی طرح ان کی زندگی چل رہی تھی) پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا اور اپنی مقدس کتاب نازل فرمائی اور جو چیزیں عنداللہ حلال تھیں ان کو حلال ہونا بیان فرمایا اور جو حرام تھیں ان کو حرام ہونا بیان فرمایا (پس جس چیز کو اللہ و رسول اللہ نے حلال بتلایا ہے وہ حلال ہے اور جس کو حرام بتایا ہے وہ حرام ہے) اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے (یعنی اس کا حلال یا حرام ہونا بیان نہیں فرمایا گیا) وہ معاف ہے (یعنی اس کے استعمال پر مواخذہ نہیں) اس کے بعد حضرت عبداللہ بن عباس نے بطورِ سند یہ آیت تلاوت فرمائی: قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً ........... الآية (سنن ابی داؤد)

تشریح
کھانے پینے سے متعلق رسول اللہ ﷺکی تعلیمات جو ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جن میں ماکولات و مشروبات یعنی کھانے پینے کی چیزوں کی حلت یا حرمت بیان فرمائی گئی ہے۔ دوسرے وہ جن میں خورد ونوش کے وہ آداب سکھائے گئے ہیں جن کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے، یا ان میں طبی مصلحت ملحوظ ہے، یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کے قبیل سے ہیں، اور ان کے ذریعہ کھانے پینے کے عمل کو جو بظاہر خالص مادی عمل ہے اور نفس کے تقاضے سے ہوتا ہے نورانی اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے۔ ماکولات و مشروبات کی حلت و حرمت کے بارے میں بنیادی بات وہ ہے جس کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے "يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ" (1) (یہ نبی اُمی ﷺ اچھی اور پاکیزہ چیزوں (الطَّيِّبَاتِ) کو اللہ کے بندوں کے لئے حلال بتلاتے ہیں اور خراب اور گندی چیزوں (الْخَبَائِثَ) کو حرام قرار دیتے ہیں)۔ قرآن و حدیث میں کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ دراصل اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو آپ ﷺ نے اللہ کے حکم سے حرام قرار دیا ہے ان میں فی الحقیقت کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے، اسی طرح جن چیزوں کو آپ ﷺ نے حلال قرار دیا ہے وہ بالعموم انسانی فطرت کے لئے مرغوب اور پاکیزہ ہیں، اور غذا کی حیثیت سے نفع بخش ہیں۔ قرآن مجید میں پینے والی چیزوں میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہےی۔ حدیثوں میں اس کے بارے میں مزید تفصیلی اور تاکیدی احکام ہیں، جیسا کہ اس سلسلہ کی آگے درج ہونے والی حدیثوں سے معلوم ہو گا۔ اور غذائی اشیاء میں سے ان چیزوں کی حرمت کا قرآن پاک میں واضح اعلان فرمایا گیا ہے۔ میتہ یعنی وہ جانور جو اپنی موت مر چکا ہو، خون یعنی وہ لہو جو رگوں سے نکلا ہو، خنزیر جو ایک ملعون اور خبیث جانور ہے، اور وہ جانور جو غیر اللہ کی نذر کیا گیا ہو (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ) یہ سب وہ چیزیں تھیں جن کو عرب کے کچھ طبقات کھاتے تھے، حالانکہ پہلی آسمانی شریعتوں میں بھی ان کو حرام قرار دیا گیا تھا، اسی لئے قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ اور بار بار ان کی حرمت کا اعلان کیا گیا۔ میتہ یعنی مرے ہوئے جانور کے حرام ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ انسان کی فطرت سلیمہ اس کو کھانے کے قابل نہیں سمجھتی بلکہ اس سے گھن کرتی ہے۔ اور طبی حیثیت سے بھی وہ مضر ہے کیوں کہ جیسا کہ علماء طب نے کہا ہے حرارتِ غریزیہ کے گھٹ جانے اور خون کے اندر ہی جذب ہو جانے سے اس میں سمیت کا اثر آ جاتا ہے۔ خون یعنی لہو کا بھی یہی حال ہے کہ فطرت سلیمہ اس کو کھانے کی چیز نہیں سمجھتی اور شریعت میں اس کو قطعا ناپاک اور نجس العین قرار دیا گیا ہے۔ اور خنزیر وہ ملعون مخلوق ہے کہ جب اللہ کے غضب و جلال نے بعض سخت مجرم اور بدکردار قوموں کو مسخ کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ان کو خنزیروں اور بندروں کی شکل میں مسخ کیا گیا (وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ) اس لئے معلوم ہوا کہ یہ دونوں جانور انتہائی خبیث و ملعون ہیں اور خدا کی لعنت و غضب کا مظہر ہیں، اس لئے ان کو قطعی حرام قرار دیا گیا۔ التبہ چونکہ بندر کو غالبا دنیا کی کوئی قوم نہیں کھاتی اور اس طرح گویا اس کی حرمت پر انسانوں کے تمام طبقات اوراقوام و ملل کا اتفاق ہے اس لئے قرآن مجید میں اس کی حرمت پر خاص زور نہیں دیا گیا، بخلاف خنزیر کے بہت سی قوموں نے خاص کر حضرت مسیح علیہ السلام کی امت نے اس کو اپنی مرغوب غذا بنا لیا ہے اس لئے قرآن پاک میں اس کی حرمت کا بار بار اور شدت و تاکید سے اعلان فرمایا گیا۔ اور احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ جب آخری زمانہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ صلیب شکنی کے ساتھ دنیا کو خنزیر کے وجود سے پاک کرنے کا بھی حکم دیں گے (وبقتل خنزير) اور اس وقت اس بات کا پورا ظہور ہو گا کہ ان کے نام لیوا عیسائیوں نے خنزیر کو اپنی مرغوب غذا بنا کر ان کی تعلیم اور تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعت کی کیسی مخالفت کی ہے۔ اور وہ جانور جس کو غیر اللہ کی نذر کر دیا گیا ہو جس کو قرآن مجید میں " فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ" کے عنوان سے ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں نذر کرنے والے کی مشرکانہ نیت اور اس کے اعتقادی شرک کی نجاست و خباثت سرایت کر جاتی ہے اس لئے وہ جانور بھی حرام ہو جاتا ہے۔ الغرض یہ چار چیزیں وہ ہیں جن کی حرمت کا اعلان اہتمام اور صراحت کے ساتھ خود قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ گویا اسی حکم الہی کا تکملہ ہے۔ اس تمہید کے بعد اب وہ احادیث پڑھئے جن میں رسول اللہ ﷺ نے کھانے پینے کی چیزوں کی علت و حرمت کے بارے میں ہدایات فرمائی ہیں: تشریح .....مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت اور قرآن پاک کے نزول کے بعد کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا معیار وحی الٰہی اور خدا اور رسول کا حکم ہے، کسی کی پسند و ناپسند اور رغبت و نفرت کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
Top