معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1552
عَنْ جَرِيرٍ قَالَ: مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلاَ رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ. (رواه البخارى ومسلم)
ضحک و تبسم (ہنسنا اور مسکرانا)
حضرت جریر بن عبداللہ بجلی ؓ سے روایت ہے کہ جب سے مجھے اسلام نصیب ہوا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے (خدمت میں) حاضری سے روکا ہو، اور جب بھی آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو آپ ﷺ نے تبسم فرمایا (یعنی ہمیشہ مسکرا کر ملے)۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ہنسی کے موقع پر ہنسایا مسکرانا بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور اس میں قطعا کوئی خیر نہیں ہے کہ آدمی کے لبوں پر کبھی مسکراہٹ بھی نہ آئے اور وہ ہمیشہ "عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا" ہی بنا رہے۔ رسول اللہ ﷺ کی عادتِ شریفہ اللہ کے بندوں اور اپنے مخلصوں سے ہمیشہ مسکرا کر ملنے کی تھی، ظاہر ہے کہ حضور ﷺ کا یہ رویہ اور برتاؤ ان لوگوں کے لئے کیسی قلبی روحانی مسرت کا باعث ہوتا ہو گا اور اس کی وجہ سے ان کے اخلاص و محبت میں کتنی ترقی ہوتی ہو گی۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حدیثیں پڑھئے: تشریح ..... " مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ جب کبھی میں نے حاضر خدمت ہونا چاہا تو آپ ﷺ نے اجازت عطا فرمائی اور شرف ملاقات بخشا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ ﷺ نے منع فرمایا ہو۔
Top