معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1516
عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: زَارَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلِنَا فَقَالَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» فَرَدَّ اَبِىْ رَدًّا خَفِيًّا، قَالَ قَيْسٌ: فَقُلْتُ: أَلَا تَأْذَنُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ذَرْهُ يُكْثِرُ عَلَيْنَا السَّلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» فَرَدَّ سَعْدُ رَدًّا خَفِيًّا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» ثُمَّ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاتَّبَعَهُ سَعْدٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَسْمَعُ تَسْلِيمَكَ وَأَرُدُّ عَلَيْكَ رَدًّا خَفِيًّا لِتُكْثِرَ عَلَيْنَا مِنَ السَّلَامِ، فَانْصَرَفَ مَعَهُ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ لَهُ سَعْدٌ بِغُسْلٍ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ نَاوَلَهُ مِلْحَفَةً مَصْبُوغَةً بِزَعْفَرَانٍ، أَوْ وَرْسٍ، فَاشْتَمَلَ بِهَا، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْدِ» قَالَ: ثُمَّ أَصَابَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمَّا أَرَادَ الِانْصِرَافَ قَرَّبَ لَهُ سَعْدٌ حِمَارًا قَدْ وَطَّأَ عَلَيْهِ بِقَطِيفَةٍ، فَقَالَ لِي سَعْدٌ: اصْحَبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَحِبْتُهُ فَقَالَ لِىْ «ارْكَبْ مَعِىْ» فَأَبَيْتُ، فَقَالَ: إِمَّا أَنْ تَرْكَبَ وَإِمَّا أَنْ تَنْصَرِفَ فَانْصَرَفْتُ. (رواه ابوداؤد)
ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے فرزند قیس بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک دن) ہمارے گھر پہ تشریف لائے اور آپ ﷺ نے (قاعدے کے مطابق باہر سے) "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ" تو میرے والد (سعد بن عبادہؓ) نے (بجائے اس کے کہ آپ ﷺ کے سلام کا آواز سے جواب دیتے اور اندر تشریف لے آنے کے لئے عرض کرتے) بہت خفی آواز سے (کہ حضور سُن نہ سکیں) صرف سلام کا جواب دیا۔ تو میں نے کہا کہ آ پ حضور ﷺ سے اندر تشریف لانے کے لئے کیوں عرض نہیں کرتے؟ میرے والد نے فرمایا کہ بولو مت، ایسے ہی رہنے دو، تا کہ آپ بار بار ہمارے لئے سلام فرمائیں (اور ہمیں اس کی برکتیں حاصل ہوں) تو رسول اللہ ﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ" حضرت سعدؓ نے پھر اسی طرح چپکے سے سلام کا جواب دیا (جس کو حضور ﷺ نے نہیں سنا۔ تو پھر (تیسری بار) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ" (اور جب اس کے بعد بھی حضرت سعدؓ کی طرف سے کوئی جواب آپ ﷺ نے نہیں سنا) تو آپ واپس لوٹنے لگے۔ تو حضرت سعدؓ آپ ﷺ کے پیچھے آئے اور عرض کیا کہ: حضرت! میں آپ کا سلام سنتا تھا اور (دانستہ) چپکے سے جواب دیتا تھا، تا کہ آپ (ﷺ) بار بار ہمارے لئے سلام فرمائیں (اور ہمیں اس کی برکات حاصل ہوں) تو رسول اللہ ﷺ سعدؓ کے ساتھ ان ان کے گھر لوٹ آئے۔ حضرت سعدؓ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺ کے غسل کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے غسل فرمایا۔ پھر حضرت سعدؓ نے حضور ﷺ کو ایک چادر دی (جو زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی تھی) جسے آپ نے "اشمال" کے طریقے پر باندھ لیا، پھر آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھا کے اس طرح دعا فرمائی: اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْد (اے میرے اللہ! اپنی خاص نوازشیں اور رحمتیں نازل فرما سعد کے گھر والوں پر) اس کے بعد آپ ﷺ نے کچھ کھانا تناول فرمایا۔ پھر جب آپ ﷺ نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو میرے والد سعد بن عبادہ نے سواری کے لئے اپنا حمار پیش کیا۔ جس کی کمر پر چادر کا گدا بنا کر رکھ دیا گیا تھا اور مجھ سے فرمایا کہ تم حضور ﷺ کے ساتھ جاؤ، تو میں آپ ﷺ کے ساتھ ساتھ چلا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ: تم بھی میرے ساتھ سوار ہو جاؤ۔ میں نے معذرت کر دی اور سوار نہیں ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: یا تو میرے ساتھ تم بھی سوار ہو جاؤ یا پھر واپس چلے جاؤ (یعنی مجھے یہ گوارا نہیں کہ میں سوار ہو کر چلو اور تم ساتھ ساتھ پیدل چلو، واقعہ کے راوی قیس بن سعد کہتے ہیں کہ جب حضور ﷺ نے یہ فرمایا تو میں واپس لوٹ آیا۔

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی کے ہاں ملاقات کے لئے جائے تو پہلے "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ" کہہ کے اندر آنے کی اجازت چاہے۔ اور جب کوئی جواب نہ ملے تو دوسری دفعہ اور پھر جواب نہ ملے تو تیسری دفعہ "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ" کہہ کے اجازت مانگے، اور بالفرض اگر تیسری دفعہ بھی جواب نہ ملے تو پھر واپس ہو جائے۔ حضرت سعد بن عبادہ نے حضور ﷺ کے بار بار سلام اور اس کی برکات حاصل کرنے کے لئے جو رویہ اختیار کیا (جس کی وجہ سے حضور ﷺ کو تین دفعہ سلام کرنا اور اس کے بعد واپسی کا ارادہ کر لینا پڑا) بظاہر ایک نامناسب بات تھی، لیکن ان کی نیت اور جذبہ بہت مبارک تھا، اور حضور ﷺ کی مزاج شناسی کی بناء پر انہیں یقین تھا کہ آپ ﷺ اس سے ناراض نہ ہوں گے۔ اس لئے انہوں نے یہ جرأت کی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور حضور ﷺ نے کسی گرانی کا اظہار نہیں فرمایا، بلکہ ان کے جذبہ اور نیت کی قدر فرمائی، جیسا کہ آپ ﷺ کی دعا سے ظاہر ہے۔ اس روایت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضور ﷺ نے غسل فرمانے کے بعد ایک ایسی چادر لپیٹ لی جو زعفران یا ورس سے رنگی ہوئی تھی۔ حالانکہ دوسری بعض حدیثوں میں اس کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے کہ کوئی مرد زعفران یا ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے (ورس بھی زعفران ہی کی طرح ایک نبات ہے جو رنگ دار بھی ہوتی ہے اور خوشبودار بھی) اب یا تو یہ سمجھا جائے کہ یہ واقعہ جو زیر تشریح حدیث میں ذکر کیا گیا ہے اس ابتدائی زمانہ کا ہے جب کہ مردوں کے لئے زعفران وغیرہ سے رنگے ہوئے کپڑوں کی ممانعت کا حکم نہیں آیا تھا، یا یہ کہا جائے کہ جو چادر حضور ﷺ نے استعمال فرمائی وہ کبھی پہلے رنگی گئی تھی لیکن بعد میں اچھی طرح دھو دی گئی تھی، اور ایسی صورت میں اس کا استعمال مردوں کے لئے بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم۔
Top