معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1512
عَنْ كَلَدَةَ بْنَ حَنْبَلٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ بَعَثَهُ بِلَبَنٍ وَجَدَايَةٍ وَضَغَابِيسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَعْلَى الوَادِي، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ وَلَمْ أُسَلِّمْ وَلَمْ أَسْتَأْذِنْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْجِعْ فَقُلْ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ؟ (رواه الترمذى وابوداؤد)
ملاقات یا گھر یا مجلس میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت
کلدہ بن حنبل سے روایت ہے کہ (ان کے اخیافی بھائی) صفوان بن امیہ نے ان کو دودھ اور ہرنی کا ایک بچہ اور کچھ کھیرے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ وادی مکہ کے بالائی حصے میں تھے کلدہ کہتے ہیں کہ یہ چیزیں لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گیا اور نہ میں نے سلام کیا اور نہ حاضری کی اجازت چاہی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم واپس جاؤ اور (قاعدہ کے مطابق) "السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ" کہہ کر اجازت مانگو۔ (جامع ترمذی، سنن ابی داؤد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ جب کسی سے ملاقات کرنے کے لئے یا اس کے گھر یا اس کی مجلس میں کوئی جانا چاہے تو پہلے سلام کہے اور اجازت مانگے، اس کے بغیر ہرگز اچانک داخل نہ ہو، معلوم نہیں وہ اس وقت کس حال اور کس کام میں ہو، ممکن ہے اس وقت اس کے لئے ملنا مناسب نہ ہو۔ تشریح ..... یہ صفوان بن امیہ مشہور دشمنِ اسلام اور دشمنِ رسول ﷺ امیہ بن خلف کے لڑکے تھے۔ یہ اللہ کی توفیق سے فتح مکہ کے بعد اسلام لے آئے۔ اور یہ واقعہ جو اس روایت میں ذکر کیا گیا ہے غالباً فتح مکہ کے سفر ہی کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا قیام وادی مکہ کے اس بالائی حصہ میں تھا جس کو معلی کہتے ہیں۔ صفوان بن امیہ نے اپنے اخیافی بھائی کلدہ بن حنبل کو ہدیہ کے طور پر یہ تین چیزیں لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ کچھ دودھ تھا، ایک ہرنی کا بچہ تھا اور کچھ کھیرے تھے۔ یہ اس سے واقف نہیں تھے کہ جب کسی سے ملنے کے لئے جانا ہو تو سلام کر کے اور پہلے اجازت لے کر جانا چاہئے اسی لئے یونہی حضور ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ آپ نے اس ادب کی تعلیم کے لئے ان سے فرمایا کہ: باہر واپس جاؤ اور کہو: "السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ" (السلام علیکم! کیا میں اندر آ سکتا ہوں) اور جب اجازت ملے تو آؤ۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے سلام اور استیذان (یعنی اجازت چاہنے) کا طریقہ صرف زبانی بتا دینے کے بجائے اس سے عمل بھی کرا دیا۔ ظاہر ہے جو سبق اس طرح دیا جائے اس کو آدمی کبھی نہیں بھول سکتا۔
Top