معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1491
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اعْبُدُوا الرَّحْمَنَ وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ وَأَفْشُوا السَّلاَمَ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلاَمٍ. (رواه الترمذى)
آدابِ ملاقات: سلام کی فضیلت و اہمیت
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگو! خدا وند رحمن کی عبادت کرو اور بندگانِ خدا کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو خوب پھیلاؤ، تم جنت میں پہنچ جاؤ گے، سلامتی کے ساتھ۔ (جامع ترمذی)

تشریح
یہاں تک جو حدیثیں درج ہوئی ان سے انسانوں کے مختلف طبقات اور اللہ کی عام مخلوقات کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات و ہدایات معلوم ہوئیں، آگے "آدابِ ملاقات" اور اس کے بعد "آدابِ مجلس" کےسلسلہ کی جو احادیث درج کی جا رہی ہیں، وہ بھی دراصل زندگی کے ایک خاص دائرے میں آپس کے برتاؤ ہی سے متعلق ہدایات ہیں۔ تحیہ اسلام، سلام دنیا کی تمام متمدن قوموں اور گروہوں میں ملاقات کے وقت پیار و محبت یا جذبہ اکرام و خیر اندیشی کا اظہار کرنے اور مخاطب کو مانوس و مسرور کرنے کے لئے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے، اور آج بھی ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں ہمارے برادرانِ وطن ہندو، ملاقات کے سات "نمستے" کہتے ہیں، کچھ پرانے قسم کے کم پڑھے لکھوں کو "رام رام" کہتے ہوئے بھی سنا ہے۔ یورپ کے لوگوں میں صبح کی ملاقات کے وقت "گذ مارننگ" (اچھی صبح) اور شام کی ملاقات کے وقت "گذ ایوننگ" (اچھی شام) اور رات کی ملاقات میں "گذ نائٹ" (اچھی رات) وغیرہ کہنے کا رواج ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے وقت عربوں میں بھی اسی طرح کے کلمات ملاقات کے وقت کہنے کا رواج تھا۔ سنن ابی داؤد میں رسول اللہ ﷺ کے صحابی عمران بن حصینؓ کا یہ بیان مروی ہے کہ ہم لوگ اسلام سے پہلے ملاقات کے وقت آپس میں "أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا" (خدا آنکھوں کی ٹھنڈک نصٰب کرے) اور "أَنْعِمْ صَبَاحًا" (تمہاری صبح خوشگوار ہو) کہا کرتے تھے۔ جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کر دی گئی، یعنی اس کے بجائے ہمیں "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ" تعلیم دی گئی۔ آج بھی غور کرے تو واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر کوئی کلمہ محبت و تعلق اور اکرام و خیراندیشی کے اظہار کے لئے سوچا نہیں جا سکتا۔ ذرا اس کی معنوی خصوصیات پر غور کیجئے۔ یہ بہترین اور نہایت جامع دعائیہ کلمہ ہے، اس کا مطلب ہے کہ اللہ تم کو ہر طرح کی سلامتی نصیب فرمائے۔ یہ اپنے سے چھوٹوں کے لئے شفقت اور مرحمت اور پیار و محبت کا کلمہ بھی ہے اور بڑوں کے لئے اس میں اکرام اور تعظیم بھی ہے، اور پھر "السَّلَامُ" اسماء الہیہ میں سے بھی ہے۔ قرآن مجید میں یہ کلمہ انبیاء و رسل علیہم السلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور اکرام اور بشارت کے استعمال فرمایا گیا ہے، اور اس میں عنایت اور پیار و محبت کا رس بھرا ہوا ہے۔ ارشاد ہوا ہے: سَلَامٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَالَمِينَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَهَارُونَ ....... سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ...... سَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ...... سَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ اور اہل ایمان کو حکم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی اسی طرح سلام عرض کریں: " السَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِىُّ " اور ایک جگہ رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ: جب ہمارے وہ بندے آپ کے پاس آئیں۔ جو ایمان لا چکے ہیں، تو آپ ان سے کہیں کہ: "سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ" (السلام علیکم! تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے رحمت کا فیصلہ فرما دیا ہے) اور آخرت میں داخلہ جنت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہلِ ایمان سے فرمایا جائے گا: "ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ" اور "سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ" الغرض ملاقات کے وقت کے لئے "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ" سے بہتر کوئی کلمہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ملنے والے پہلے بے باہم متعارف اور شناسا ہیں اور ان میں محبت و اخوت یا قرابت کے قسم کا کوئی تعلق ہے تو اس کلمہ میں اس تعلق اور اس کی بناء پر محبت و مسرت اور اکرام و خیراندیشی کا پورا اظہار ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف اور تعلق نہیں ہے، تو یہ کلمہ ہی تعلق و اعتماد اور خیرسگالی کا وسیلہ بتنا ہے، اور اس کے ذریعے ہر ایک دوسرے کو گویا اطمینان دلاتا ہے کہ میں تمہارا خیراندیش اور دعاگو ہوں، اور میرے تمہارے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہے۔ بہرحال ملاقات کے وقت "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ" اور "وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ" کی تعلیم رسول اللہ ﷺ کی نہایت مبارک تعلیمات میں سے ہے، اور یہ اسلام کا شعار ہے، اور اسی لئے آپ ﷺ نے اس کی بڑی تاکید فرمائی اور بڑے فضائل بیان فرمائے یہں۔ اس تمہید کے بعد اس سلسلہ کی احادیث پڑھئے! تشریح ..... اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے تین نیک کاموں کی ہدایت فرمائی ہے، اور ان کے کرنے والے کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ایک خداوند رحمن کی عبادت (یعنی بندے پر اللہ کا جو حق ہے اور جو دراصل مقصدِ تخلیق ہے کہ اس کی اور صرف اس کی عبادت کی جائے اور اس کو ادا کیا جائے) دوسرے اطعام طعام، یعنی اللہ کے محتاج اور مسکین بندوں کو بطور صدقہ کے اور دوستوں عزیزوں اور اللہ کے نیک بندوں کو بطور ہدیہ اخلاق و محبت کے کھانا کھلایا جائے (جو دلوں کو جورنے اور محبت و الفت پیدا کرنے کا بہترین وسیلہ ہے، اور بخل جیسی مہلک بیماری کا علاج بھی ہے) تیسرے "السَّلَامُ عَلَيْكُمْ" اور "وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ" کو جو اسلامی شعار ہے اور اللہ تعالیٰ کی تعلیم فرمایا ہوا دعائیہ کلمہ ہے، اس کو خوب پھیلایا جائے اور اس کی ایسی کثرت اور ایسی رواج ہو کہ اسلامی دنیاکی فضاء اس کی لہروں سے معمور رہے۔ ان تین نیک کاموں پر رسول اللہ ﷺ نے بشارت سنائی ہے: " تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ " (تم پوری سلامتی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاؤ گے)۔
Top