معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1455
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِخْوَانُكُمْ، جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ جَعَلَ اللَّهُ أَخَاهُ تَحْتَ يَدِهِ، فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ، وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلاَ يُكَلِّفُهُ مِنَ العَمَلِ مَا يَغْلِبُهُ، فَإِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ عَلَيْهِ. (رواه البخارى ومسلم)
یہ غلام تمہارے بھائی ہیں ، ان سے برادرانہ سلوک کیا جائے
حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: (یہ بیچارے غلام) تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے ان کو تمہارا زیرِ دست (محکوم) بنا دیا ہے، تو اللہ جس کے زیرِ دست (اور تحت حکم) اس کے کسی بھائی کو کر دے تو اس کو چاہئے کہ اس کو وہ کھلائے جو خود کھاتا ہے، اور وہ پہنائے جو خود پہنتا ہے، اور اس کو ایسے کام کا مکلف نہ کرے جو اس کے لئے بہت بھاری ہو، اور اگر ایسے کام کا مکلف کرے تو پھر اس کام میں خود اس کی مدد کرے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں ہر غلام کو اس کے آقا کا بھائی بتایا گیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کے تحت میں کر دیا ہے۔ اس تعبیر میں اس مظلوم طبقہ کے ساتھ حسن سلوک کی جتنی موثر اپیل ہے وہ ظاہر ہے۔ غلام اور آقا کو بھائی غالبا اسی بناء پر قررار دیا گیا ہے کہ دونوں بہرحال آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ ؎ بنی آدم اعضائے یکد یگرند کہ در آفرینش ز یک جوہر اند پھر اسی تعلق اور رشتہ کی بنیاد پر فرمایا گیا ہے کہ جب تمہارا غلام اور خادم تمہارا بھائی ہے تو اس کے ساتھ وہی برتاؤ ہونا چاہئے جو بھائیوں کے ساتھ ہوتا ہے اسے وہی کھلایا اور پہنایا جائے جو خود کھایا اور پہنا جائے۔
Top