معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1454
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِلْمَمْلُوكِ طَعَامُهُ وَكِسْوَتُهُ، وَلَا يُكَلَّفُ مِنَ الْعَمَلِ إِلَّا مَا يُطِيقُ» (رواه مسلم)
غلوموں اور زیرِ دستوں کے بارے میں ہدایت: غلاموں کے بنیادی حقوق
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: طعام اور لباس غلام کا حق ہے، اور یہ بھی اس کا حق ہے کہ اسے ایسے سخت کام کی تکلیف نہ دی جائے جس کا وہ متحمل نہ ہو سکے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں مبعوث ہوئے تو عرب میں بلکہ قریب قریب اس پوری دنیا میں جس کی تاریخ معلوم ہے غلاموں کا طبقہ موجود تھا۔ فاتح قومیں مفتوح قوموں کے افراد کو غلام بنا لیتی تھیں، پھر وہ ان کی ملکیت ہو جاتے تھے، ان سے جانوروں کی طرح محنت و مشقت کے کام لئے جاتے تھے، اور ان کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک طرف تو غلاموں کو آزاد کرنے کو بہت سے گناہوں کا کفارہ اور بہت بڑا کارِ ثواب قرار دیا اور طرح طرح سے اس کی ترغیب دی، دوسری طرف ہدایت فرمائی کہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے، ان پر محنت و مشقت کا زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، ان کے طعام لباس جیسی بنیادی ضرورتوں کا مناسب انتظام کیا جائے، بلکہ حکم دیا کہ جو گھر میں کھایا جائے وہی اس کو کھلایا جائے، جیسا کپڑا خود پہنا جائے ویسا ہی ان کو پہنایا جائے، ان کے معاملے میں خدا کے محاسبہ اور مواخذہ سے ڈرا جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان ہدایات اور تعلیمات نے غلاموں کی دنیا ہی بدل دی، پھر تو ان میں سے ہزاروں امت کے ائمہ اور پیشوا تک ہوئے، ہزاروں حکومت کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوئے، ان کی حکومتیں تک قائم ہوئیں۔ یہ سب اس ہدایت و تعلیم ہی کے نتائج تھے جو انسانیت کے اس مظلوم و ناتواں طبقہ کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو دی تھی، اور پھر ساری دنیا اس سے متاثر ہوئی۔ اس سلسلہ کی چند حدیثیں ذیل میں پڑھی جائیں۔ تشریح ..... اس حدیث میں صرف یہ فرمایا گیا ہے کہ طعام و لباس غلام کا حق ہے۔ آقا کی یہ ذمہ داری ہے کہ س کا یہ حق ادا ہو، اسے ضرورت بھر کھانا اور کپڑا دیا جائے۔ آگے درج ہونے والی حدیث سے معلوم ہو گا کہ اسے وہی کھانا کھلایا جائے جو گھر میں کھایا جائے، وہی لباس پہنایا جائے جو خود پہنا جائے۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ: اس پر کام کا بےجا بوجھ نہ ڈالا جائے، اتنا ہی کام لیا جائے جتنا وہ کر سکے۔ یہ گویا غلاموں کے بنیادی حقوق ہیں۔
Top