معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1442
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى عَنْ أَبِيهِ عَنْ جده: قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ لا يفقهون جيرانهم ولا يعلمونهم ولا يعظونهم ولا يامرونهم ومَا بَالُ أَقْوَامٍ لا يتعلمون جيرانهم ولا يتفقهون ولا يتعظون والله ليعلمن قوم جيرانهم ويفقهونهم ويعظونهم ويامرونهم وينهونهم وليتعلمن قوم من جيرانهم ويتفقهون ويتعظون ولاعاجلنهم بالعقوبة فى الدنيا. (رواه ابن راهويه والبخارى فى الوحدان وابن السكن وابن مدة)
تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی پڑوسی کا حق ہے
علقمہ بن عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد عبدالرحمن کے واسطے سے اپنے دادا ابزی خزاعی ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن (اپنے ایک خاص خطاب میں) اراشاد فرمایا: کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو اور کیا حال ہے ان کا (جنہیں اللہ نے علم و تفقہ کی دولت سے نوازا ہے اور ان کے پڑوس میں ایسے پسماندہ لوگ ہیں جن کے پاس دین کا علم اور اس کی سمجھ بوجھ نہیں ہے) وہ اپنے ان پڑوسیوں کو دین سکھانے اور ان میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، نہ ان و وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرتے ہیں۔ اور کیا ہو گیا ہے ان (بےعلم اور پسماندہ) لوگوں کو کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے دین سیکھنے اور دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی فکر نہیں کرتے نہ ان سے نصیحت لیتے ہیں۔ خدا کی قسم! (دین کا علم اور اس کی سمجھ رکھنے والے) لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے (ناواقف اور پسماندہ) پڑوسیوں کو دین سکھانے اور دین کی سمجھ بوجھ ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور وعظ و نصیحت (کے ذریعہ ان کی اصلاح) کریں اور انہیں نیک کاموں کی تاکید اور برے کاموں سے منع کریں اور اسی طرح ان کے ناواقف اور پسماندہ پڑوسیوں و چا ہئے کہ وہ خود طالب بن کر اپنے پڑوسیوں سے دین کا علم و فہم حاصل کریں اور ان سے نصیحت لیں۔ یا پھر (یعنی اگر یہ دونوں طبقے اپنا اپنا فرض ادا نہیں کریں گے) تو میں ان کو دنیا ہی میں سخت سزا دوں گا۔ (مسند اسحاق بن راہویہ)

تشریح
پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے جو ارشادات یہاں تک درج ہوئے ان کا زیادہ تر تعلق زندگی کے معاملات میں ان کے ساتھ اکرام و رعایت کے برتاؤ اور حسن سلوک سے تھا۔ آخر میں آپ ﷺ کا ایک وہ ارشاد بھی پڑھئے جس میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی کے پڑوس میں بےچارے ایسے لوگ رہتے ہوں جو دینی تعلیم و تربیت اور اپنی عملی اور اخلاقی حالت کے لحاظ سے پسماندہ ہوں تو دوسرے لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت اور اور ان کے سدھار و اصلاح کی فکر و کوشش کریں اور اگر وہ اس میں کوتاہی کریں تو مجرم اور سزا کے مستحق ہوں گے۔ تشریح ..... یہ حدیث کنز العمال جلد پنجم میں "حق الجار" کے زیر عنوان اسی طرح مرکوز ہے۔ جس طرح یہاں درج کی گئی ہے، لیکن دوسری جگہ اسی کنز العمال میں حضور و کا یہی خطاب قریب قریب انہی الفاظ میں اس اضافہ کے ساتھ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا روئے سخن اس خطاب میں ابو موسیٰ اشعری اور ابو مالک اشعری کی قوم اشعریین کی طرف تھا۔ اس قوم کے افراد عام طور سے دین کے علم اور تفقہ سے بہرہ مند تھے لیکن ان ہی کے علاقہ میں اور ان کے پڑوس میں ایسے لوگ بھی آباد تھے جو اس لحاظ سے بہت پسماندہ تھے، نہ ان کی تعلیم و تربیت ہوئی تھی اور نہ خود ان می ں اس کی طلب اور فکر تھی۔ اس لحاظ سے یہ دونوں طبقے قصور وار تھے، اس بناء پر رسول اللہ ﷺنے اپنے کریمانہ عادت کے مطابق ان کو نامزد کئے بغیر اپنے اس خطاب میں ان دونوں پر عتاب فرمایا تھا۔ اس روایت میں آگے یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جب اشعریین کو یہ معلوم ہوا کہ اس خطاب میں حضور ﷺ کے عتاب کا روئے سخن ہماری طرف تھا تو ان کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو اور انہوں نے حضور ﷺ سے یہ وعدہ کیا کہ ہم ان شاء اللہ ایک سال کے اندر اندر ان آبادیوں کے لوگوں کو دین کی تعلیم دے دیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر علاقہ کے لوگوں کو جو دین کا علم رکھتے ہوں اس کا ذمہ دار قرار دیا کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے ناواقف لوگوں کو دین کی تعلیم دیں اور تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان ی اصلاح کی کوشش کرتے تہیں۔ اور اس طرح ناواقف لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے کہ وہ اپنے پاس پڑوس کے اہل علم اور اہل دین سے تعلیم اور تربیت و اصلاح کا رابطہ رکھیں۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت پر عمل جاری رہتا تو امت کے کسی طبقہ میں بھی دین سے بےخبری اور رسول اللہ ﷺ سے وہ بےتعلقی نہ ہوتی جس میں امت کی غالب اکثریت آج مبتلا ہے۔ بلاشبہ اس وقت کا سب سے بڑا اصلاحی اور تجدیدی کارنامہ یہی ہے کہ امت میں تعلیم اور تعلم کے اس عمومی غیر رسمی نظام کو پھر سے جاری اور قائم کیا جائے جس کی اس حدیث پاک میں ہدایت فرمائی گئی ہے۔ بڑے خوش نصیب ہوں گے وہ بندے جن کو اس کی توفیق ملے گی۔
Top