معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1437
عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ» (رواه مسلم)
وہ آدمی مومن اور جنتی نہیں جس کے پڑوسی اس سے مامون اور بے خوف نہ ہوں
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"وہ آدمی جنت میں داخل نہ ہو سکے گا جس کی شرارتوں اور ایذاء رسانیوں سے اس کے پڑوسی مامون نہ ہوں "۔ (صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کا کردار اور رویہ ایسا ہو کہ اس کے پڑوسی اس کی شرارتوں اور بداطواریوں سے خائف رہتے ہوں وہ اپنی اس بدکرداری کی وجہ سے اور اس کی سزا پائے بغیر جنت میں نہ جا سکے گا۔ ان دو حدیثوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم و ہدایت میں ہمسائیوں کے ساتھ حسن سلوک کا کیا درجہ اور مقام ہے۔ نبوت کی زبان میں کسی عمل کی سخت تاکید اور دین میں اس کی انتہائی اہمیت جتانے کے لئے آخری تعبیر یہی ہوتی ہے کہ اس میں کوتاہی کرنے والا مومن نہیں یا یہ کہ وہ جنت میں نہ جا سکے گا۔ افسوس یہ ہے کہ اس طرح کی حدیثیں ہمارے علمی اور درسی حلقوں میں اب کلامی بحثوں اور علمی موشگافیوں کا موضوع بن کر رہ گئی ہیں، شاذ و نادر ہی اللہ کے وہ خوش نصیب بندے ہوں گے جو یہ حدیثیں پڑھ کر اور سن کر زندگی کے اس شعبہ کو درست کرنے کی فکر میں لگ جائیں، حالانکہ حضور ﷺ کے ان ارشادات کا مقصد و مدعا یہی ہے۔ یہ حدیثیں پڑھنے اور سننے کے بعد بھی پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ اور رویہ کو بہتر اور خوشگوار بنانے کی فکر نہ کرنا بلاشبہ بری شقاوت اور بدبختی کی نشانی ہے۔ اسی سلسلہ "معارف الحدیث" کی پہلی جلد "کتاب الایمان" میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے کہ اس طرح کی حدیثیں جن میں کسی عملی یا اخلاقی تقصیر اور کوتاہی کی بناء پر ایمان کی نفی کی گئی ہے یا جنت میں نہ جا سکنے کی وعید سنائی گئی ہے ان کا مدعا اور مطلب کیا ہے اور شریعت میں ایسے لوگوں کا حکم کیا ہے۔
Top