معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1430
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، «فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ، فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ فَيَلْعَبْنَ مَعِي» (رواه البخارى ومسلم)
بیویوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا معیاری اور مثالی برتاؤ
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس (یعنی نکاح و رخصتی کے بعد آپ ﷺ کے ہاں آ جانے کے بعد بھی) گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری کچھ سہیلیاں تھیں (جو ساتھ کھیلنے کے لئے میرے پاس بھی آیا جایا کرتی تھیں) تو جب آنحضرتﷺ گھر میں تشریف لاتے تو وہ (آپ کے اس احترام میں کھیل چھوڑ کے) گھر کے اندر جا چھپتیں تو آپ ﷺ ان کو میرے پاس بھجوا دیتے (یعنی خود فرما دیتے کہ وہ اسی طرح میرے ساتھ کھیلتی رہیں) چنانچہ وہ آ کے پھر میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ صحیح روایات کے مطابق نو سال کی عمر میں آنحضرتﷺ کے گھر آ گئیں تھیں (1) اور اس وقت وہ گڑیوں سے کھیلا کرتی تھیں اور انہیں اس سے دلچسپی تھی۔ صحیح مسلم کی ایک دوسری حدیث میں خود حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا اپنے متعلق یہ بیان ہے: "وَزُفَّتْ إِلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ، وَلُعَبُهَا مَعَهَا" (یعنی جب ان کی رخصتی ہوئی تو وہ نو سال کی تھیں اور ان کے کھیلنے کی گڑیاں ان کے ساتھ تھیں) صحیحین کی زیرِ تشریح حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انہیں اس کھیل اور تفریحی مشغلہ سے نہ صرف یہ کہ منع فرماتے تھے بلکہ اس بارے میں ان کی اس حد تک دلداری فرماتے تھے کہ جب آپ کے تشریف لانے پر ساتھ کھیلنے والی دوسری بچیاں کھیل چھوڑ کے بھاگتیں تو آپ ﷺ خود ان کو کھیل جاری رکھنے کے لئے فرما دیتے۔ ظاہر ہے کہ بیوی کی دلداری کی یہ انتہائی مثال ہے۔ حضرت عائشہ ؓ گریاں اور تصویر کا مسئلہ یہاں بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب ذی روح کی تصویر بنانا اور اس کا گھر میں رکھنا جائز نہیں اور اس پر صحیح حدیثوں میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت صدیقہؓ کو گڑیوں سے کھیلنے اور گھر میں رکھنے کی اجازت کیوں دی؟ بعض شارحین نے اس کا ایک جواب یہ بھی دیا ہے کہ حضرت عائشہؓ کے گڑیوں سے کھیلنے کا یہ واقعہ ہجرت کے ابتدائی زمانہ کا ہے جب کہ تصویروں کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا، بعد میں جب تصویروں کے بنانے اور رکھنے کی سخت ممانعت کر دی گئی تو گڑیوں کے بنانے اور کھیلنے کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ لیکن اس عاجز کے نزدیک زیادہ صحیح جواب یہ ہے کہ حضرت صدیقہ ؓ کی یہ گڑیاں تصویر کے حکم میں داخل ہی نہیں تھیں۔ وہ تو چودہ سو برس پہلے کی بات ہے خود ہمارے اس زمانے میں جب کہ سینے پرونے کے فن نے وہ ترقی کر لی ہے جو معلوم ہے گھروں کی چھوٹی بچیاں اپنے کھیلنے کے لئے جو گڑیاں بناتی ہیں ہم نے دیکھا کہ تصویریت کے لحاظ سے وہ اتنی ناقص ہوتی ہیں کہ ان پر کسی طرھ بھی تصویر کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، اس لئے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی گڑیوں کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔
Top