معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1425
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ خَيْرًا، فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ» (رواه البخارى ومسلم)
بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگو! بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کے بارے میں میری وصیت مانو (یعنی میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کی ان بندیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نرمی اور مدارات کا برتاؤ رکھو، ان کی تخلیق پسلی سے ہوئی ہے (جو قدرتی طور پر ٹیڑھی ہتی ہے) اور زیادہ کجی پسلی کے اوپر کے حصے میں ہوتی ہے، اگر تم اس ٹیڑھی پسلی کو (زبردستی) بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی، اور اگر اسے یونہی اپنے حامل پر چھوڑ دو گے (اور درست کرنے کی کوشش نہ کرو گے) تو پھر وہ ہمیشہ ویسی ہی ٹیڑھی رہے گی، اس لئے بیویوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
اس حدیث میں عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے: "فَإِنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِنْ ضِلَعٍ" (ان کی تخلیق اور بناوٹ پسلی سے ہوئی ہے) یہ واقعہ کا بیان بھی ہو سکتا ہے اور اس کو محاوراتی تمثیل بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہرصورت مقصد و مدعا یہ ہے کہ عورتوں کی جبلت اور سرشت میں کچھ نہ کچھ کجی ہوتی ہے۔ (1) جیسے کہ آدمی کے پہلو کی پسلی میں قدرتی کجی ہوتی ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے ک زیادہ کجی اس کے اوپر والے حصے میں ہوتی ہے، یہ غالبا اس طرف اشارہ ہے کہ عورت میں کجی کا زیادہ تر ظہور اوپر کے حصے میں ہوتا ہے جس میں سوچنے والا دماغ اور بولنے والی زبان ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے کہ اگر تم ٹیڑھی پسلی کو زور و قوت سے بالکل سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اور اگر یونہی چھوڑ دو گے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی۔ مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی زبردستی اور تشدد سے عورت کی مزاجی کجی نکالنے کی کوشش کرے گا تو وہ کامیاب نہ ہو سکے گا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ افتراق اور علیحدگی کی نوبت آ جائے اور اگر اصلاح کی بالکل فکر نہ کرے گا تو وہ کجی ہمیشہ رہے گی اور کبھی قلبی سکون اور زندگی کی خوشگواری کی وہ دولت حاصل نہ ہو سکے گی جو رشتہ اردواج کا خاص مقصد ہے۔ اس لئے مردوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کی معمولی غلطیوں اور کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ساتھ بہتر سلوک اور دلداری کا برتاؤ کریں۔ اس طریقے اسے ان کی اصلاح بھی ہو سکے گی، یہ میری خاص وصیت اور نصیحت ہے۔ اس پر کاربند رہو۔ "اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا" سے آپ نے کالم شروع فرمایا تھا اور خاتمہ کلام پر پھر فرمایا: "فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ" اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک اور دلداری کے برتاؤ کا کتنا اہتمام تھا۔
Top