معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1421
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ كُنْتُ آمُرُ أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. (رواه الترمذى)
اگر غیر اللہ کے لئے سجدے کی گنجائش ہوتی تو عورتوں کو شوہروں کے لئے سجدے کا حکم ہوتا
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر میں کسی مخلوق کے لئے سجدے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (جامع ترمذی)

تشریح
کسی مخلوق پر کسی دوسری مخلوق کا زیادہ سے زیادہ حق بیان کرنے کے لئے اس سے زیادہ بلیغ اور موثر کوئی دوسرا عنوان نہیں ہو سکتا جو رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں بیوی پر شوہر کا حق بیان کے لئے اختیار فرمایا۔ حدیث کا مطلب اور مدعا یہی ہے کہ کسی کے نکاح میں آ جانے اور اس کی بیوی بن جانے کے بعد عورت پر خدا کے بعد سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہو جاتا ہے۔ اسے چاہئے کہ اس کی فرمانبرداری اور رجا جوئی میں کوئی کمی نہ کرے۔ جامع ترمذی میں یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ سے انہی الفاظ میں روایت کی گئی ہے۔ (52) اور امام احمد نے مسند میں اسی مضمون کی ایک حدیث حضرت انسؓ سے ان الفاظ میں روایت کی ہے۔ «لَا يَصْلُحُ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، وَلَوْ صَلَحَ لِبَشَرٍ أَنْ يَسْجُدَ لِبَشَرٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، مِنْ عِظَمِ حَقِّهِ عَلَيْهَا» (الحديث) کسی آدمی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے آدمی کو سجدہ کرے اور اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کیا کرے، کیوں کہ اس پر اس کے شوہر کا بہت بڑا حق ہے۔ (53) اور سنن ابن اماجہ میں یہی مضمون حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کی روایت سے حضرت معاذ بن جبل کے ایک واقعہ کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔ اس روایت میں واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ: "مشہور انصاری صحابی معاذ بن جبل ؓ ملک شام گئے ہوئے تھے جب وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا۔ آپ ﷺ نے تعجب سے پوچھا: " مَا هَذَا يَا مُعَاذ؟ " "معاذ! یہ کیا کر رہے ہو؟" انہوں نے عرض کیا کہ: میں شام گیا تھا، وہاں کے لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ اپنے دینی پیشواؤں پادریوں کو اور قومی سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میرے دل میں آیا کہ ایسے ہی ہم بھی آپ کو سجدہ کیا کریں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ایسا نہ کرو۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا. (الحديث) اگر میں کسی کو اللہ کے سوا اور کے لئے سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (54) اور سنن ابی داؤد میں اس سے ملتا جلتا ایک دوسرا واقعہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی قیس بن سعد سے روایت کیا گیا ہے۔ وہ خود اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: "میں حیرہ گیا تھا (یہ کوفہ کے پاس ایک قدیمی شہر تھا) وہاں کے لوگوں نے دیکھا کہ وہ ادب و تعظیم کے طور پر اپنے سردار کو سجدہ کرتے ہیں۔ میں نے اپنی جی میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کیا کریں، پھر جب میں (سفر لوٹ کے) آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے یہی بات عرض کی۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: «أَرَأَيْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِي أَكُنْتَ تَسْجُدُ لَهُ؟» قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: «فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ يَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِهِنَّ لِمَا جَعَلَ اللَّهُ لَهُمْ عَلَيْهِنَّ مِنَ الْحَقِّ» بتاؤ اگر (میرے مرنے کے بعد) تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے تو کیا میری قبر کو بھی سجدہ (1) کرو گے؟ (قیس کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ نہیں (میں آپ کی قبر کو تو سجدہ نہیں کروں گا) تو آپ ﷺ نے فرمایا ایسے ہی اب بھی نہ کرو۔ (اس کے بعد آپنے ارشاد فرمایا) اگر میں کسی کو کسی دوسری مخلوق کے لئے سجدہ کرنے کے لئے کہتا تو عورتوں کو کہتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں، اس عظیم حق کی بناء پر جو اللہ نے ان کے شوہروں کا ان پر مقرر کیا ہے۔" (55) اور مسند احمد میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ایک اور واقعہ روایت کیا گیا ہے کہ ایک اونٹ نے نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدہ کیا (یعنی وہ اس طرح آپو کے حضور میں جھک گیا جس کو دیکھنے والوں نے سجدہ سے تعبیر کیا) اس اونٹ کا یہ طرز عمل دیکھ کر بعض صحابہؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ اونٹ جیسے چوپائے اور درخت آپ کے لئے سجدہ کرتے ہیں (یعنی جھک جاتے ہیں) تو ان کی بہ نسبت ہمارے لئے زیادہ سزاوار ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپنے ان سے فرمایا: «اعْبُدُوا رَبَّكُمْ، وَأَكْرِمُوا أَخَاكُمْ، وَلَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا، أَنْ يَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا» (الحديث) عبادت اور پرستش بس اپنے رب کو کرو اور اپنے بھائی کا (یعنی میرا) بس اکرام و احترام کرو اور اگر میں کسی کو کسی دوسری مخلوق کے لئے سجدہ کرنے کو کہتا تو عورت کو کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ الخ ان مختلف احادیث و روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیوی پر شوہر کے حق کے بارے میں یہ سجدے والی بات مختلف موقعوں پر اور بار بار فرمائی۔ ہر قسم کا سجدہ صرف اللہ کے لئے ان سب حدیثوں سے یہ بات بھی پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ معلوم ہو گئی کہ شریعت محمدی ﷺ میں سجدہ صرف اللہ کے لئے ہے اس کے سوا کسی دوسرے کے لئے حتی کہ افضل مخلوق سید الانبیاء حضرت محمدﷺ کے لئے بھی کسی طرح کے سجدہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ حضرت م عاذ یا قیس بن سعدؓ یا جن دوسرے صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے حضور میں سجدے کے بارے میں عرض کیا تھا وہ سجدہ تحیہ ہی کے بارے میں عرض کیا تھا (جس کو لوگ سجدہ تعظیمی بھی کہہ دیتے ہیں) اس کا تو شبہ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ان صحابہؓ نے معاذ اللہ سجدہ عبادت و عبودیت کے بارے میں عرض کیا ہو۔ جو شخص رسول اللہ ﷺ پر ایمان لا چکا اور آپ ﷺ کی دعوت توحید کو قبول کر چکا اس کو تو اس کا وسوسہ بھی نہیں آ سکتا کہ اللہ کے سوا کسی دوسرے کو سجدہ عبادت کرے۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ ان حدیثوں کا تعلق خاص کر سجدہ تحیہ ہی سے ہے۔ اسی لئے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ کسی مخلوق کے لئے سجدہ تحیہ بھی حرام ہے۔ پس جو لوگ اپنے بزرگوں، مرشدوں کو یا مرنے کے بعد ان کے مزاروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ بہرحال شریعت محمدی ﷺ کے مجرم اور باغی ہیں اور ان کا یہ عمل صورۃ بلاشبہ شرک ہے۔ (غیر اللہ کے لئے سجدے کے بارے میں یہاں جو چند سطریں لکھی گئیں، یہ مندرجہ بالا احادیث کی تشریح کا ضروری حق اور تقاضا تھا اب اصل موضوع (یعنی بیوی پر شوہر کے حقوق) سے متعلق بقیہ احادیث پڑھئے)
Top