معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1406
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ فِي عَهْدِ قُرَيْشٍ، إِذْ عَاهَدُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمُدَّتِهِمْ مَعَ أَبِيهَا، فَاسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ صِلِيهَا» (رواه البخارى ومسلم)
خدمت اور حسن سلوک کافر و مشرک ماں کا بھی حق ہے
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور قریش مکہ کے (حدیبیہ والے) معاہدے کے زمانہ میں میری ماں جو اپنے مشرکانہ مذہب پر قائم تھی (سفر کر کے مدینے میں) میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری ماں میرے پاس آئی ہے اور وہ کچھ خواہش مند ہے، تو کیا میں اس کی خدمت کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اس کی خدمت کرو (اور اس کے ساتھ وہ سلوک کرو جو بیٹی کو ماں کے ساتھ کونا چاہئے) (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت اسماء صدیق ؓ کی صاحبزادی اور دوسری ماں سے حضرت عائشہؓ کی بڑی بہن تھیں، ان کی ماں کا نام روایات میں قتیلہ بنت العزی ذکر کیا گیا ہے (جن کو حضرت ابو بکرؓ نے زمانہ جاہلیت ہی میں طلاق دے کر الگ کر دیا تھا، بہرحال اسلام کے دور میں یہ ان کی بیوی نہیں رہیں اور اپنے مشرکانہ طریقے ہی پر قائم رہیں۔ صلح حدیبیہ کے زمانہ میں جب مشرکین مکہ کو مدینہ آنے کی اور مدینہ کے مسلمانوں کو مکہ جانے کی آزادی حاصل ہو گئی تو حضرت اسماء کی یہ ماں اپنی بیٹی کے پاس مدینے آئیں۔ حضرت اسماءؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ: "مجھے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے، کیا ان کے کافر و مشرک ہونے کی وجہ سے میں ان سے "ترک موالات" کروں یا ماں کے رشتے کا لحاظ کر کے ان کی خدمت اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ " آپ نے حکم دیا کہ: ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو جو ماں کا حق ہے۔ حدیث میں "رَاغِبَةٌ" کا لفظ ہے جس کا ترجمہ اس عاجز نے خواہش مند کیا ہے، اس بناء پر مطلب یہ ہو گا کہ حضرت اسماء نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میری ماں جو مشرک ہیں کچھ خواہش مند ہو کر یہاں آئی ہیں یعنی وہ اس کی طالب و متوقع ہیں کہ میں ان کی مالیل خدمت کروں۔ بعض شارحین نے اس کا ترجمہ منحرف اور بیزار بھی کیا ہے اور لغت کے لحاظ سے اس کی بھی گنجائش ہے۔ اس بناء پر مطلب یہ ہو گا کہ میری ماں ملنے تو آئی ہیں لیکن ہمارے دین سے منحرف اور بےزار ہیں، ایسی صورت میں ان کے ساتھ میرا رویہ کیا ہو نا چاہئے؟ کیا ماں ہونے کی وجہ سے ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کروں، یا بے تعلقی اور بےرخی کا رویہ اختیار کروں بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہدایت فرمائی کہ ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو، جو ماں کا حق ہے۔ (نَعَمْ صِلِيهَا) اوپر قرآن مجید کی وہ آیت ذکر کی جا چکی ہے جس میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کسی کے ماں باپ کافر و مشرک ہوں، اور وہ اولاد کو بھی کفر شرک کے لئے مجبور کریں اور دباؤ ڈالیں تو اولاد ان کی یہ بات تو نہ مانے لیکن ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک برابر کرتی ہے۔
Top