معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1402
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَجُلًا هَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْيَمَنِ فَقَالَ: «هَلْ لَكَ أَحَدٌ بِالْيَمَنِ؟»، قَالَ: أَبَوَايَ، قَالَ: «أَذِنَا لَكَ؟» قَالَ: «لَا»، قَالَ: «ارْجِعْ إِلَيْهِمَا فَاسْتَأْذِنْهُمَا، فَإِنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ، وَإِلَّا فَبِرَّهُمَا» (رواه ابوداؤد احمد)
ماں باپ کی خدمت بعض حالات میں ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کر کے حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچا تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا یمن میں تمہارا کوئی ہے؟ اس نے عرض کیا کہ: ہاں! میرے والدین ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا: انہوں نے تم کو اجازت دی ہے؟ (اور تم ان کی اجازت سے یہاں آئے ہو؟) اس نے عرض کیا: کہ ایسا تو نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر ماں باپ کے پاس جاؤ اور یہاں آنے کی (اور جہاد اور دین کی محنت میں لگنے کی) ان سے اجازت مانگو، پھر وہ اگر تمہیں اجازت دے دیں تو آؤ اور جہاد میں لگ جاؤ اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے رہو۔ (سنن ابی داؤد، مسند احمد)

تشریح
ہجرت کر کے آنے والوں اور جہاد میں شرکت کرنے والوں کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا جو عام مستقل رویہ اور اسوہ حسنہ تھا اس کی روشنی میں اس قسم کی تمام احادیث کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کا تعلق اس صورت سے ہے جب ماں باپ خدمت کے سخت محتاج ہوں اور اگر دوسرا ان کی خبر گیری کرنے والا نہ ہو اور اس وجہ سے وہ اجازت بھی نہ دیں تو پھر بلاشبہ ان کی خدمت اور خبر گیری ہجرت اور جہاد سے بھی مقدم ہو گی۔
Top