معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1391
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:«مَنِ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ، فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ، كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ» (رواه البخارى ومسلم)
خاص کر لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس بندے یا بندی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیٹیوں کی ذمہ داری ڈالی گئی (اور اس نے اس ذمہ داری کو ادا کیا) اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا، تو یہ بیٹیاں اس کے لئے دوزخ سے بچاؤ کا سامان بن جائیں گی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
حضرت صدیقہؓ کی اسی حدیث کی ایک روایت میں وہ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے جس کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ نے یہ حدیث ارشاد فرمائی تھی۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس ایک نہایت غریب عورت کچھ مانگنے کے لئے آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں بھی تھیں، اتفاق سے ان کے پاس اس وقت صرف ایک کھجور تھی۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے وہی کھجور اسی بےچاری کو دے دی۔ اس نے اس ایک کھجور کے دو ٹکڑے کر کے دونوں بچیوں میں تقسیم کر دئیے، اور خود اس میں سے کچھ بھی نہیں لیا اور چلی گئی۔ کچھ دیر کے بعد رسول اللہ ﷺ گھر میں تشریف لائے تو میں نے آپ سے یہ واقعہ بیان کیا۔ اس پر اپﷺ نے فرمایا کہ: جس بندے یا بندی پر بیٹیوں کی ذمہ داری پڑے، اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے، تو یہ بیٹیاں آخرت میں اس کی نجات کا سامان بنیں گی۔ مطلب یہ ہے کہ یہ آدمی اگر بالفرض اپنے کچھ گناہوں کی وجہ سے سزا اور عذاب کے قابل ہو گا تو لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک کے صلہ میں اس کی مغفرت فرما دی جائے گی اور وہ دوزخ سے بچا دیا جائے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ایک دوسری روایت میں جس کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ واقعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک بےچاری مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو گود میں لئے ان کے پاس آئی اور سوال کیا، تو حضرت عائشہؓ نے اس کو تین کھجوریں دیں، اس نے ایک ایک دونوں بچیوں کو دے دی، اور ایک خود کھانے کے لئے اپنے منہ میں رکھنے لگی، بچیوں نے اس تیسری کھجور کو بھی مانگا تو اس نے خود نہیں کھائی، بلکہ وہ بھی آدھی آدھی کر کے دونوں بچیوں کو دے دی۔ حضرت عائشہؓ اس کے اس طرز عمل سے بہت متاثر ہوئیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: "اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے اسی عمل کی وجہ سے اس کے لئے جنت کا اور دوزخ سے رہائی کا فیصلہ فرما دیا "۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت صدیقہ کے ساتھ یہ دونوں واقعے الگ الگ پیش آئے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ واقعہ ایک ہی ہو اور راویوں کے بیان میں اختلاف ہو گیا ہو۔
Top