معارف الحدیث - کتاب المعاملات والمعاشرت - حدیث نمبر 1375
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ إِذَا عَقُّوا عَنِ الصَّبِيِّ خَضَبُوا قُطْنَةً بِدَمِ العقيقة, فإذا حلقوا رأس الصي, وَضَعُوهَا عَلَى رَأْسَهُ, فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اجعلوا مكان الدم خلوقا" (رواه ابن حبان فى صحيحه)
عقیقہ
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ بچے کا عقیقہ کرتے تو روئی کے ایک پھوئے میں عقیقہ کے جانور کا خون بھر لیتے، پھر جب بچے کا سر منڈوا دیتے تو وہ خون بھرا پھویا اس کے سر پر رکھ دیتے (اور اس کے سر کو عقیقہ کے خون سے رنگین کر دیتے، یہ ایک جاہلانہ رسم تھی) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:"بچے کے سر پر خون نہیں بلکہ اس کی جگہ خلوق لگایا کرو"۔ (صحیح حبان)

تشریح
خلوق ایک مرکب خوشبو کا نام ہے جو زعفران وغیرہ سے تیار کی جاتی ہے۔ حضرت بریدہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ عقیقہ کا رواج عربوں میں زمانہ جاہلیت میں بھی تھا چونکہ اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے، اور یہ بنیادی طور پر شریعت اسلامی کے مزاج کے مطابق تھا، اور غالباً مناسکِ حج کی طرح ملتِ ابراہیمی کے بقایا میں سے تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصل کو باقی رکھا اور جاہلانہ رسوم کی اصلاح فرمائی۔ اسی طرح بیہقی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کا رواج یہود میں بھی تھا لیکن وہ صرف لڑکوں کی طرف سے عقیقہ کی قربانی کرتے تھے لڑکیوں کی طرف سے نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے غالباً لڑکیوں کی ناقدری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی بھی اصلاح فرمائی اور حکم دیا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی طرف سے بھی عقیقہ کیا جائے۔ (1) البتہ دونوں صنفوں میں قدرتی اور فطری فرق ہے (جس کا لحاظ میراث اور قانونِ شہادت وغیرہ میں بھی کیا گیا ہے) اس کی بناء پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ لڑکی کے عقیقہ میں ایک بکری اور لڑکے کے عقیقہ میں (اگر استطاعت اور وسعت ہو) تو دو بکریوں کی قربانی کی جائے۔
Top