معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 97
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلاً مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الخَلاَئِقِ يَوْمَ القِيَامَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ البَصَرِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا؟ أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الحَافِظُونَ؟ فَيَقُولُ: لاَ يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: أَفَلَكَ عُذْرٌ؟ فَيَقُولُ: لاَ يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: بَلَى إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً، فَإِنَّهُ لاَ ظُلْمَ عَلَيْكَ اليَوْمَ، فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ مَا هَذِهِ البِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلاَّتِ، فَقَالَ: إِنَّكَ لاَ تُظْلَمُ، قَالَ: فَتُوضَعُ السِّجِلاَّتُ فِي كَفَّةٍ وَالبِطَاقَةُ فِي كَفَّةٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلاَّتُ وَثَقُلَتِ البِطَاقَةُ، فَلاَ يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللهِ شَيْءٌ. (رواه الترمذى وابن ماجه)
میزانِ اعمال میں اللہ کے نام کا وزن
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا "قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میری امت میں سے ایک شخص کو ساری مخلوق کے روبرو الگ نکالے گا، اور اس کے سامنے ننانوے دفتر کھولے جائیں گے، جن میں ہر دفتر کی لمبائی گویا حد نظر تک ہو گی، (یہ دفتر اس کے اعمال نامے ہوں گے) پھر اس سے فرمایا جائے گا، کہ (تیرے جو اعمال ان دفتروں میں لکھے ہوئے ہیں) کیا ان میں سے کسی کا تجھے انکار ہے؟ کیا تیرے اعمال کی نگرانی کرنے والے، اور لکھنے والے میرے فرشتوں نے تجھ پر ظلم کیا ہے (اور غلط طور پر کوئی گناہ تیرے اعمال نامے میں لکھ دیا ہے)۔ وہ عرض کرے گا نہیں پروردگار! (مجھ پر کسی نے ظلم نہیںکیا ہے، بلکہ یہ سب میرے کئے ہوئے اعمال ہیں)۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے، وہ عرض کرے گا، خدا وندا میرے پاس کوئی عذر بھی نہیں (یہاں تک کہ سوال و جواب سے خوس اس شخص کو اور دوسرے لوگوں کو بھی خیال ہو گا کہ یہ بندہ اب گرفت اور عذاب سے کہاں بچ سکے گا، لیکن ارحم الراحمین کی رحمت کا اس طرح ظہور ہو گا کہ) اللہ تعالیٰ اس شخص سے فرمائیں گے، ہاں! ہمارے پاس تیری ایک خاص نیکی بھی ہے، اور آج تیرے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہو گا (اور اس نیکی کے فائدہ سے تجھے محروم نہیں کیا جائے گا)۔ یہ فرما کر کاغذ کا ایک پرزہ نکالا جائے گا۔ اس میں لکھا ہو گا "أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ" اور اس بندے سے کہا جائے گا کہ اپنے اعمال کے وزن کے پاس حاضر ہو (یعنی چل کر اپنے سامنے وزن کرا) وہ عرض کرے گا، خدا وندا! ان دفتروں کے سامنے اس پرزہ کی کیا حقیقت ہے، اور ان سے اس کو کیا نسبت ہے (یعنی میں وہاں جا کر کیا دیکھوں گا، اور کیا کروں گا، نتیجہ تو معلوم ہی ہے، کہاں اتنے بڑے بڑے ننانوے دفتر، اور کہاں یہ ذرا سا پرزہ) اللہ تعالیٰ فرمائے گا، نہیں تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا (بلکہ پورا پورا انصاف کیا جائے گا، جس پرزہ کو تو معمولی اور بےوزن سمجھ رہا ہے تیرے سامنے اس کا بھی وزن کیا جائے گا اور آج اس کا، اور اس میں لکھئے ہوئے ایمانی کلمہ کا وزن ظاہر ہو گا اور اس کا تجھے پورا پورا فائدہ پہنچایا جائے گا، اس لئے مایوس نہ ہو، اور میزان کے پاس جا کر وزن کو دیکھ) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ ننانوے دفتر ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے، اور کاغذ کا وہ پرزہ دوسرے پلڑے میں، پس ہلکے ثابت ہوں گے وہ دفتر اور بھاری رہے گا وہ پرزہ، اور کوئی چیز بھاری نہیں ہو سکتی، اللہ کے نام کے مقابلے میں۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
بعض شارحین نے اس حدیث کی توجیہ میں لکھا ہے کہ یہ شہادت کا وہ کلمہ ہو گا جو کفر و شرک سے نکلنے کے لیے اور ایمان و اسلام میں آنے کے لیے پہلی دفعہ دل و زبان سے پڑھا گیا ہو گا، قیامت میں وزن اعمال کے وقتاس کا یہ اثر ظاہر ہو گا، کہ ساری عمر کے پہلے گناہ اس کے اثر سے بے وزن اور بے اثر ہو جائیں گے پہلے بھی ایک حدیث گذر چکی ہے: "أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ" (یعنی اسلام قبول کرنے سے وہ سارے گناہ ختم ہو جاتے ہیں جو پہلی زندگی میں آدمی نے کئےہوں)۔ اور ایکدوسری توجیہ اس حدیث کی یہ بھی کی گئی ہے کہ یہ معاملہ اس شخص کا ہو گا جو مدت دراز تک غفلت اور بے پروائی سے گناہ پر گناہ کرتا رہا اور دفتر کے دفتر لکھے جاتے رہے، پھر اللہ نے اسے توفیق دی اور اس نے دل کی گہرائی سے اور پورے اخلاص سے اس کلمہ شہادت اور کلمہ ایمانکے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی ایمانی نسبت کو درست کر لیا، اور اسی پر اس کو موت آ گئی۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
Top