معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 96
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَعَدَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَمْلُوكِينَ يُكَذِّبُونَنِي وَيَخُونُونَنِي وَيَعْصُونَنِي، وَأَشْتُمُهُمْ وَأَضْرِبُهُمْ فَكَيْفَ أَنَا مِنْهُمْ؟ قَالَ: «يُحْسَبُ مَا خَانُوكَ وَعَصَوْكَ وَكَذَّبُوكَ وَعِقَابُكَ إِيَّاهُمْ، فَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ بِقَدْرِ ذُنُوبِهِمْ كَانَ كَفَافًا، لَا لَكَ وَلَا عَلَيْكَ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ دُونَ ذُنُوبِهِمْ كَانَ فَضْلًا لَكَ، وَإِنْ كَانَ عِقَابُكَ إِيَّاهُمْ فَوْقَ ذُنُوبِهِمْ اقْتُصَّ لَهُمْ مِنْكَ الفَضْلُ». قَالَ: فَتَنَحَّى الرَّجُلُ وَجَعَلَ يَهْتِفُ وَيَبْكِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا تَقْرَأُ كِتَابَ اللَّهِ {وَنَضَعُ المَوَازِينَ القِسْطَ لِيَوْمِ القِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ }. فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا أَجِدُ لِي وَلِهَؤُلَاءِ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ مُفَارَقَتِهِمْ، أُشْهِدُكَ أَنَّهُمْ كُلُّهُمْ أَحْرَارٌ. (رواه الترمذى)
قیامت میں حقوق العباد کا انصاف
عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ھاضر ہوا، اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا، پھر عرض کیا، یا رسول اللہ! میرے پاس کچھ غلام ہیں (جن کی حالت یہ ہے کہ بسا اوقات وہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میری چیزوں میں خیانتیں بھی کرتے ہیں، میری نافرمانی بھی کرتے ہیں اور میں (ان کی ان حرکتوں پر) کبھی انہیں گالیاں دیتا ہوں اور کبھی مارتا بھی ہوں، پس کیا حال ہو گا میرا قیامت کے دن ان کی وجہ سے (یعنی اللہ تعالیٰ میرا اور ان کا فیصلہ کس طرح فرمائے گا) رسول اللہ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا: کہ "تمہارے ان غلاموں نے تمہاری جو خیانت اور نافرمانی کی ہو گی، اور تم سے جو جو جھوٹ بولے ہون گے، اور پھر تم نے ان کو جو سزائیں دی ہوں گی، قیامت کے دن ان سب کا پورا پورا حساب کیا جائے گا، پس اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں کے بقدر ہی ہو گی تو معاملہ برابر پر ختم ہو جائے گا، نہ تم کو کچھ ملے گا اور نہ تمہیں کچھ دینا پڑے گا، اور اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں سے کم ثابت ہو گی تو تمہارا فاضل حق تمہیں وہاں ملے گا، اور اگر تمہاری سزا ان کے قصوروں سے زیادہ ثابت ہو گی تو تم سے اس کا بدلہ اور قصاص ان کو دلوایا جائے گا (جب اس شخص نے رسول اللہ ﷺ کا یہ جواب سُنا) تو آپ کے پاس سے ایک طرف کو ہٹ کر رونے اور چلانے لگا (یعنی قیامت کے اس محاسبہ اور پھر وہاں کے عذاب کے خوف سے جب اس پر گریہ غالب ہوا تو وہ ادب کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے سامنے سے اٹھ گیا، اور ایک طرف کو ہٹ کر بے اختیار رونے اور چلانے لگا)۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر اس سے فرمایا، کیا تم قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھتے: وَنَضَعُ المَوَازِينَ القِسْطَ لِيَوْمِ القِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ اور ہم قائم کریں گے قیامت کے دن انصاف کی میزانیں، پس نہیں ظلم ہو گا، کسی نفس پر کچھ بھی، اور اگر ہو گا کسی کا عمل، یا حق، رائی کے ایک دانے کے برابر ھاضر کریں گے ہم اس کو بھی، اور کافی ہیں ہم حساب کرنے والے۔ اس شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! (یہ سب کچھ سننے کے بعد) میں اپنے لئے اور ان کے لئے اس سے بہتر کچھ نہیں سمجھتا، کہ (لوجہ اللہ آزاد کر کے) ان کو اپنے سے الگ کر دوں، میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان کو آزاد کر دیا اور اب وہ آزاد ہیں۔

تشریح
ایمان کی یہی شان ہے، اور سچے ایمان والوں کا طرزِ عمل یہی ہونا چاہئے کہ جس چیز میں آخرت کا خطرہ نظر آئے اس سے بچا جائے، اگرچہ دنیوی نقطہ نظر سے اس میں اپنا کتنا ہی نقصان ہو۔
Top