معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 95
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا ذَكَرَتِ النَّارَ فَبَكَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا يُبْكِيكِ؟» قَالَتْ: ذَكَرْتُ النَّارَ فَبَكَيْتُ، فَهَلْ تَذْكُرُونَ أَهْلِيكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا فِي ثَلَاثَةِ مَوَاطِنَ فَلَا يَذْكُرُ أَحَدٌ أَحَدًا: عِنْدَ الْمِيزَانِ حَتَّى يَعْلَمَ أَيَخِفُّ مِيزَانُهُ [ص:241] أَوْ يَثْقُلُ، وَعِنْدَ الْكِتَابِ حِينَ يُقَالُ {هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَابِيَهْ} حَتَّى يَعْلَمَ أَيْنَ يَقَعُ كِتَابُهُ أَفِي يَمِينِهِ أَمْ فِي شِمَالِهِ أَمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِهِ، وَعِنْدَ الصِّرَاطِ إِذَا وُضِعَ بَيْنَ ظَهْرَيْ جَهَنَّمَ ". (رواه ابو داؤد)
اللہ کے حضور میں پیشی اور اعمال کی جانچ
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ انہیں ایک دفعہ دوزخ کا خیال آیا، اور وہ رونے لگیں، رسول اللہ ﷺ نے پوچھا، تمہیں کس چیز نے رلایا؟ عرض کیا، مجھےدوزخ یاد آئی، اور اسی کے خوف نے مجھے رلایا ہے، تو کیا آپ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد رکھیں گے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تین جگہ تو کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا (اور کسی کی خبر نہیں لے گا) ایک وزنِ اعمال کے وقت، جب تک کہ یہ نہ معلوم ہو جائے، کہ اس کے اعمال کا وز ہلکا ہے یا بھاری، اور دوسرے اعمالناموں کے ملنے کے وقت جب کہ مرد مؤمن داہنے ہاتھ میں اپنا اعمال نامہ پا کر خوشی خوشی دوسرے سے کہے گا، کہ پڑھو میرا اعمال نامہ، یہاں تک کہ معلوم ہو جائے، کہ کس ہاتھ میں دیا جاتا ہے اس کا اعمال نامہ، آیا داہنے ہاتھ میں، یا پیچھے کی جانب سے بائیں ہاتھ میں، اور تیسرے پُل صراط پر جب کہ وہ رکھا جائے گا، جہنم کے اوپر (اور حکم دیا جائے گا سب کو اس پر سے گزرنے کا)۔ (ابو داؤد)

تشریح
رسول اللہ ﷺ کے جواب کا حاصل یہ ہوا کہ یہ تین وقت ایتے نفسا نفسی کے ہوں گے کہ ہر ایک کو صرف اپنی فکر ہو گی، اور کوئی کسی دوسرے کی مدد نہ کر سکے گا، ایک وزن اعمال کا وقت، جب تک کہ نتیجہ معلوم نہ ہو جائے گا، اور دوسرا وہ وقت جب لوگ اپنے اپنے اعمال ناموں کے منتظر ہوں گے، اور ہر ایک اس فکر میں غرق ہو گا، کہ اس کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جاتا ہے یا بائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے، وہ مغفرت اور رحمت کا مستحق قرار پاتا ہے، یا لعنت اور عذاب کا، اور تیسرے اس وقت جب کہ صراط کا پل جہنم پر لگا دیا جائے گا اور اس پر سے گزرنے کا حکم ہو گا، تو یہ تین وقت ایسے نفسا نفسی کے ہوں گے کہ ہر ایک اپنی ہی فکر میں ڈوبا ہو گا، اور کوئی کسی کی خبر نہ لے سکے گا۔ اس حدیث کی روح اور رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا منشاء بس یہی ہے، کہ ہر شخص آخرت کی فکر کرے، اور کوئی کسی دوسرے کے بھروسہ نہ رہے۔
Top