معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 94
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يُدْنِي المُؤْمِنَ، فَيَضَعُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ وَيَسْتُرُهُ، فَيَقُولُ: أَتَعْرِفُ ذَنْبَ كَذَا؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ أَيْ رَبِّ، حَتَّى إِذَا قَرَّرَهُ بِذُنُوبِهِ، وَرَأَى فِي نَفْسِهِ أَنَّهُ هَلَكَ، قَالَ: سَتَرْتُهَا عَلَيْكَ فِي الدُّنْيَا، وَأَنَا أَغْفِرُهَا لَكَ اليَوْمَ، فَيُعْطَى كِتَابَ حَسَنَاتِهِ، وَأَمَّا الكَافِرُ وَالمُنَافِقُونَ، فَيَقُولُ الأَشْهَادُ: {هَؤُلاَءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى رَبِّهِمْ أَلاَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ} (رواه البخارى ومسلم)
اللہ کے حضور میں پیشی اور اعمال کی جانچ
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت میں اللہ تعالیٰ ایمان والے اپنے بندے کو (اپنی رحمت سے) قریب کرے گا، اور اس پر اپنا خاص پردہ ڈالے گا، اور دوسروں سے اس کو پردہ میں کر لے گا، پھر اس سے پوچھے گا، کہ کیا تو پہچانتا ہے فلاں گناہ، فلاں گناہ! (یعنی کیا تجھے یاد ہے، کہ تو نے یہ یہ گناہ کئے تھے؟) وہ عرض کرے گا ہاں! اے پروردگار! مجھے یاد ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہوں کا اس سے اقرار کرا لے گا، اور وہ اپنے جی میں خیال کرے گا کہ میں تو ہلاک ہوا (یعنی اس کو خیال ہو گا، کہ جب اتنے میرے گناہ ہیں، تو اب میں کیسے چھٹکارا پا سکوں گا) پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، میں نے دنیا میں تیرے ان گناہوں کو چھپایا تھا، اور آج میں ان کو بخشتا ہوں اور معافی دیتا ہوں، پھر اس کا نیکیوں والا اعمال نامہ اس کے حوالے کر دیا جائے گا (یعنی اہلِ محشر کے سامنے صرف نیکیوں والا ہی اعمال نامہ آئے گا، اور گناہوں معاملہ اللہ تعالیٰ پردہ ہی پردہ میں ختم کر دیں گے) لیکن اہلِ کفر اور منافقین کا معاملہ یہ ہو گا، کہ ان کے متعلق برسر عام پکارا جائے گا، کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے اللہ پر جھوٹی جھوٹی باتیں باندھیں (یعنی غلط اور بے اصل خیالات کو اللہ کی طرف نسبت دے کر اپنا دین و مذہب بنایا) خبردار اللہ کی لعنت ہے ایسے ظالموں پر۔
Top