معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 93
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: «هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ، لَيْسَتْ فِي سَحَابَةٍ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: «فَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، لَيْسَ فِي سَحَابَةٍ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ، إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا، قَالَ: فَيَلْقَى الْعَبْدَ، فَيَقُولُ: أَيْ فُلْ أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟ فَيَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ؟ فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي، ثُمَّ يَلْقَى الثَّانِيَ فَيَقُولُ: أَيْ فُلْ أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ، وَتَرْبَعُ، فَيَقُولُ: بَلَى، أَيْ رَبِّ فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ؟ فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي، ثُمَّ يَلْقَى الثَّالِثَ، فَيَقُولُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ آمَنْتُ بِكَ، وَبِكِتَابِكَ، وَبِرُسُلِكَ، وَصَلَّيْتُ، وَصُمْتُ، وَتَصَدَّقْتُ، وَيُثْنِي بِخَيْرٍ مَا اسْتَطَاعَ، فَيَقُولُ: هَاهُنَا إِذًا، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: الْآنَ نَبْعَثُ شَاهِدَنَا عَلَيْكَ، وَيَتَفَكَّرُ فِي نَفْسِهِ: مَنْ ذَا الَّذِي يَشْهَدُ عَلَيَّ؟ فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، وَيُقَالُ لِفَخِذِهِ وَلَحْمِهِ وَعِظَامِهِ: انْطِقِي، فَتَنْطِقُ فَخِذُهُ وَلَحْمُهُ وَعِظَامُهُ بِعَمَلِهِ، وَذَلِكَ لِيُعْذِرَ مِنْ نَفْسِهِ، وَذَلِكَ الْمُنَافِقُ وَذَلِكَ الَّذِي سَخِطَ اللهُ عَلَيْهِ "(رواه مسلم)
اللہ کے حضور میں پیشی اور اعمال کی جانچ
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہتے ہیں، کہ بعض صحابہؓ نےعرض کیا، "یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟" آپ نے فرمایا "کیا دوپہر کے وقت میں آفتاب کے دیکھنے میں، جب کہ وہ بدلی میں بھی نہ ہو، تم میں کوئی کشمکش ہوتی ہے؟" انہوں نے عرض کیا، "نہیں!" پھر آپ نے فرمایا "کیا چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں، جب کہ وہ بدلی میں بھی نہ ہو، تم میں کوئی کشمکش اور کوئی رد و کد ہوتی ہے؟" انہوں نے عرض کیا "نہیں!" اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا "قسم ہے اس ذات کی، جس کے قبضے میں میری جان ہے تم جس طرح چاند اور سورج کو بلا کسی کشمکش اور بغیر کسی اختلاف اور نزاع کے دیکھتے ہو، اسی طرح قیامت میں اپنے پروردگار کو دیکھو گے"۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ قیامت میں جب اللہ سے ایک بندہ کا سامنا ہو گا، تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا، اے فلانے کیا میں نے دنیا میں تجھے عزت نہیں دی تھی، کیا تجھے تیری قوم میں سرداری نہیں دی تھی، کیا تجھے بیوی نہیں عطا کی تھی، اور کیا تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ (سواریوں) کو مسخر نہیں کیا تھا، اور کیا میں نے تجھے چھوڑے نہیں رکھا تھا، کہ تو ریاست اور سرداری کے، اور مالِ غنیمت میں سے چوتھائی وصول کرے، وہ بندہ عرض کرے گا، ہاں! اے پروردگار آپ نے یہ سب کچھ مجھے عطا فرمایا تھا، پھر اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا، تو کیا تجھے اس کا خیال اور گمان تھا، کہ تو ایک دن میرے سامنےا ٓئے گا؟ وہ عرض کرے گا، میں یہ خیال نہیں کرتا تھا، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا، آج میں تجھے اپنے رحم و کرم سے اسی طرح بُھلاتا ہوں جس طرح تو نے مجھے بھلائے رکھا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے دوسرے ایک بندہ کا سامنا ہو گا، اور اس سے بھی حق تعالیٰ اسی طرح فرمائے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ تیسرے ایک بندہ سے ملے گا، اور اس سے بھی اسی طرح فرمائے گا، یہ بندہ عرض کرے گا، کہ اے پروردگار میں تجھ پر ایمان لایا، اور تیری کتاب پر، اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا، اور میں نے نمازیں پڑھیں اور روزے رکھے، اور صدقہ بھی ادا کیا (اور اس کے علاوہ بھی) وہ بندہ خوب اپنے اچھے کارنامے بیان کرے گا، جہاں تک بھی بیان کر سکے گا، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا، یہاں ٹھہر! پھر اس سے کہا جائے گا، کہ ہم ابھی تجھ پر ایک گواہ قائم کرتے ہیں، اور وہ اپنے جی میں سوچے گا، کہ وہ کون ہو گا جو مجھ پر گواہی دے گا، پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اس کی ران کو حکم دیا جائے گا، کہ بول! تو اس کی ران اور اس کا وگوشت اور اس کی ہڈیاں اُس کے اعمال کی گواہی دیں گے، اور اللہ تعالیٰ یہ اسلئے کرے گا، کہ اس کا عذر باقی نہ رہے، اور یہ منافق ہو گا، اور اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہو گا۔ (مسلم)

تشریح
پوچھنے والوں نے رسول اللہ ﷺ سے صرف اتنا پوچھا تھا، کہ کیا قیامت میں ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکیں گے؟ آپ نے چاند اور سورج کی مثال دے کر یہ سمجھا دینا چاہا، کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ کا دیکھنا اتنے واضح طریقے پر ہو گا جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو گی، نیز یہ بھی آپ نے واضح فرمایا کہ جس طرح چاند اور سورج کو مشرق و مغرب کے کروڑوں آدمی بیک وقت دیکھتے ہیں، اور بالکل یکساں طور پر دیکھتے ہیں، اور ان کے درمیان کوئی کشمکش نہیں ہوتی، اسی طرح قیامت میں سب اللہ تعالیٰ کو بھی دیکھ سکیں گے۔ پھر مزید برآن آپ نے یہ بھی فرما دیا، کہ بعض لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بڑی بڑی نعمتیں دے رکھی ہیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کو بالکل بھولے ہوئے ہیں، اور آخرت کی پیشی سے بالکل بے فکر ہو گئے ہیں، جب قیامت میں اللہ تعالیٰ سے ان کا سامنا ہو گا، اور اللہ تعالیٰ ان سے باز پرس کرے گا، تو اس دن وہ کیسے لا جواب، اور کیسے ذلیل و خوار ہوں گے، اور ان میں سے جو دیدہ ور اور بے حیا منافق اس وقت غلط بیانی کریں گے، اللہ تعالیٰ خود انہیں کے اعضاء سے اور انہیں کے گوشت اور انہیں کی ہڈیوں سے ان کے خلاف گواہی دلوا کر ان پر حجت قائم فرما دیں گے، اور اس طرح علی رؤس الاشھاد ان کے جھوٹ، اور ان کی منافقت کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اصل سوال سے زائد یہ بیان، سوال کرنے والے صحابہ کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا، کہ قیامت میں صرف اللہ تعالیٰ کا دیکھنا ہی نہ ہو گا بلکہ حق تعالیٰ نے جو نعمتیں جس کو دی ہین اس وقت وہ ان کی بابت پوچھ گچھ بھی کرے گا۔ (ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ) اور جن لوگوں نے اللہ کے احکام سے بے پروا ہو کر آخرت کی پیشی سے بے فکر رہ کر ان نعمتوں کو دنیا میں استعمال کیا ہو گا، وہ اس دن سیاہ ہوں گے، اور وہاں کسی کی مکاری اور عیاری بالکل پردہ پوشی نہ کر سکے گا۔
Top