معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 90
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ القِيَامَةِ ثَلاَثَةَ أَصْنَافٍ: صِنْفًا مُشَاةً، وَصِنْفًا رُكْبَانًا، وَصِنْفًا عَلَى وُجُوهِهِمْ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ يَمْشُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ؟ قَالَ: إِنَّ الَّذِي أَمْشَاهُمْ عَلَى أَقْدَامِهِمْ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَمَا إِنَّهُمْ يَتَّقُونَ بِوُجُوهِهِمْ كُلَّ حَدَبٍ وَشَوْكٍ. (رواه الترمذى)
قیامت
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، کہ "قیامت کے دن سب آدمی تین قسموں اور تین گروہوں میں اٹھائے جائیں گے، ایک قسم پیدل چلنے والے، اور ایک قسم سوار، اور ایک قسم منہ کے بل چلنے والے "۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ (تیسرے گروہ والے) منہ کے بل کس طرح چل سکیں گے؟ آپ نے فرمایا: "جساللہ نے انہیں پاؤں کے بل چلایا ہے، وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ ان کو منہ کے بل چلائے"۔ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ لوگ اپنے منہ کے ذریعے ہیزمین کے ہر ٹیلے ٹھیرے، اور ہر کانٹے سے بچیں گے۔ (ترمذی)

تشریح
حدیث میں جن تین گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے شارحین حدیث نے ان کی تفصیل اس طرح کی ہے، کہ پیدل چلنے والا گروہ عام اہلِ ایمان کا ہو گا، اور دوسرا گروہ جو سواریوں پر ہو گا، وہ خاص مقربین اور عبادِ صالحین کا گروہ ہو گا، جن کا وہاں شروع ہی سے اعزاز و اکرام ہوگا، اور سر کے بل، اور منہ کے بل چلنے والے وہ بد نصیب ہوں گے، جنہوں نے اس دنیوی زندگی میں انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اور ہدایت کے مطابق سیدھا چلنا قبول نہیں کیا، اور مرتے دم تک وہ الٹے ہی چلتے رہے۔ قیامت کے دن اس کی پہلی سزا انہیں یہ ملے گی، کہ سیدھے پاؤں پر چلنے کے بجائے وہاں وہ الٹے منہ کے اور سر کے بل چلائے جائیں گے، یہاں تک کہ جس طرح اس دنیا میں چلنے والے راستے کی اونچ نیچ سے، اور جھاڑیوں اور کانٹوں سے اپنے پاؤں کے ذریعہ بچ کر نکلتے ہیں، اسی طرح قیامت میں یہ سر کے بل چلنے والے وہاں کے راستے کی اونچ نیچ سے، اور وہاں کے کانٹوں سے اپنے سروں اور چہروں ہی کے ذریعہ بچ کر نکلیں گے، یعنی یہاں پر جو کام پاؤں سے کئے جاتے ہیں، وہاں وہ سبکام خدا کے ان مجرموں کو سر سے اور منہ سے کرنے پڑیں گے۔ اَللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْهُمْ
Top