معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 84
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنَ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ - لَا أَدْرِي: أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ شَهْرًا، أَوْ عَامًا فَيَبْعَثُ اللهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ، ثُمَّ يَمْكُثُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ، لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّأْمِ، فَلَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ، حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ، حَتَّى تَقْبِضَهُ " قَالَ: سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ وَأَحْلَامِ السِّبَاعِ، لَا يَعْرِفُونَ مَعْرُوفًا وَلَا يُنْكِرُونَ مُنْكَرًا، فَيَتَمَثَّلُ لَهُمُ الشَّيْطَانُ، فَيَقُولُ: أَلَا تَسْتَجِيبُونَ؟ فَيَقُولُونَ: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ فَيَأْمُرُهُمْ بِعِبَادَةِ الْأَوْثَانِ، وَهُمْ فِي ذَلِكَ دَارٌّ رِزْقُهُمْ، حَسَنٌ عَيْشُهُمْ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَلَا يَسْمَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا أَصْغَى لِيتًا وَرَفَعَ لِيتًا، قَالَ: وَأَوَّلُ مَنْ يَسْمَعُهُ رَجُلٌ يَلُوطُ حَوْضَ إِبِلِهِ، قَالَ: فَيَصْعَقُ، وَيَصْعَقُ النَّاسُ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللهُ - أَوْ قَالَ يُنْزِلُ اللهُ - مَطَرًا كَأَنَّهُ الطَّلُّ أَوِ الظِّلُّ - نُعْمَانُ الشَّاكُّ - فَتَنْبُتُ مِنْهُ أَجْسَادُ النَّاسِ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ، ثُمَّ يُقَالُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ هَلُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ، وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ، قَالَ: ثُمَّ يُقَالُ: أَخْرِجُوا بَعْثَ النَّارِ، فَيُقَالُ: مِنْ كَمْ؟ فَيُقَالُ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ، قَالَ فَذَاكَ يَوْمَ يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا، وَذَلِكَ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ " (رواه مسلم)
قیامت
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "(قیامت سے پہلے) دجال کا خروج ہو گا، اور وہ ٹھہرے گا چالیس تک " (اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابی عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ) میں نہیں جانتا کہ حضور(ﷺ) کا مطلب چالیس سے چالیس دن تھے، یا چالیس مہینے، یا چالیس سال۔ آگے حدیث بیان کرتے ہیں، کہ پھر اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم کو (اس دنیا میں) بھیجیں گے، گویا کہ وہ عروہ بن مسعود ہیں (یعنی ان کی شکل و صورت عروہ بن مسعود ثقفی سے بہت ملتی جلتی ہو گی) وہ دجال کو تلاش کریں گے (اور اس کا تعاقب کریں گے، اور اس کو پا کر) اس کا خاتمہ کر دیں گے۔ پھر (دجال کا خاتمہ کر دینے کے بعد) سات سال تک وہ اس دنیا کے لوگوں اور ان کے ساتھ رہیں گے (اور ان کی برکت سے لوگوں میں ایسا اتحاد و اتفاق ہو جائے گا، کہ) دو آدمی بھی ایسے نہیں رہیں گے جن میں باہم عداوت اور دشمنی ہو، پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے (ایک خاص قسم کی) ٹھنڈی ہوا چلائے گا، جس کا اثر یہ ہو گا، کہ روئے زمین پر کوئی ایسا باقی نہیں رہے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی نیکی ہو، یا فرمایا: کہ ذرہ برابر ایمان ہو، (بہر حال اس ہوا سے تمام اہل ایمان، اور اہلِ خیر ختم ہو جائیں گے)(۱) یہاں تک کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی پہاڑکے اندر چلا جائے گا، تو یہ ہوا وہیں پہنچ کر اس کا خاتمہ کرے گی، آنحضرتﷺ نے فرمایا، کہ اس کے بعد صرف خراب آدمی ہی دنیا میں رہ جائیں گےئ (جن کے دل ایمان اور نیکی سے بالکل خالی ہوں گے) ان میں پرندوں والی تیزی اور پھرتی، اور درندوں والا ذہن جمع ہو گا (اس کا مطلب بظاہر یہ ہے، کہ ان میں ظلم اور سفاکی تو درندوں کی سی ہو گی، اور اپنے ظالمانہ مقاصد اور اپنی ناپاک خواہشات کو پورا کرنے میں وہ ہلکے پھلکے برق رفتار پرندوں کی طرح تیز رو، اور پھرتیلے ہوں گے) نیکی اور بھلائی سے وہ مانوس نہ ہوں گے اور برائی کو وہ برائی نہ سمجھیں گے، (نہ اس کی مذمت کرین گے) پس شیطان ایک شکل بنا کر ان کے سامنے آئے گا، اور ان سے کہے گا، کیا تم شرم و حیا نہیں کرو گے، وہ کہیں گے کہ تم ہم کو کیا حکم دیتے ہو؟ (یعنی تم جو کہو، وہ ہم کریں) پس شیطان انہیں بتوں کی پرستش کا حکم دے گا (اور وہ اس کا اتباع کریں گے) اور وہ اس حال میں ہوں گے، کہ رزق کی افراط اور بارش ہو گی، اور دنیوی زندگی بطاہر بڑی اچھی (عیش و نشاط والی زندگی ہو گی)۔ پھر صور پھونکا جائے گا، پس جو کوئی اس کو سُنے گا، اس کی جانب گردن ایک طرف کو جھک جائے گی اور ایک طرف کو اٹھ جائے گی (یعنی سر جسم پر سیدھا قائم نہ رہےگا، بلکہ ادھر یا ادھر کو لٹک جائے گا، جیسا کہ اس شخص کا حال ہو جاتا ہے جس پر اچانک کوئی ایسا دورہ پڑے جس سے اس کے رگ پٹھے بےکار اور بے جان ہو جائیں) اور سب سے پہلے جو شخص صور کی آواز سنے گا (اور جس پر سب سے پہلے اس کا اثر پڑے گا)وہ ایک آدمی ہو گا، جو اپنے اونٹ کے حوض کو مٹی سے درست کر رہا ہو گا، پس وہ بے ہوش اور بے جان ہو کر گر جائے گا (یعنی مر جائے گا) اور دوسرے سب لوگ بھی اسی طرح بے جان ہو کر گر جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ (ایک ہلکی سی) بارش بھیجے گا، گویا کہ وہ شبنم ہے، اس کے اثر سے انسانوں کے جسموں میں روئیدگی آ جائے گی پھر دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا۔ تو ایک دم سب کے سب کھڑے ہوں گے دیکھتے ہوں گے، پھر کہا جائے گا، کہ اے لوگو! اپنے مالک اور رب کی طرف چلو (اور فرشتوں کو حکم ہو گا، کہ) انہیں (حساب کے میدان میں) کھڑا کرو، ان سے پوچھا جائے گا (اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہو گا) پھر حکمہو گا، کہ ان میں سے دوزخ کی فوج نکالو، عرض کیا جائے گا، کہ کتنےمیں سے کتنے؟ حکم ہو گا، کہ ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ ہو گا وہ دن، جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور یہیہے دن سخت مصیبت اور مشقت کا۔ (مسلم)

تشریح
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خروج دجال سے لے کر حشر تک کے بلکہ میدانِ حساب میں جمع ہونے تک کے، بعض واقعات کا تذکرہ فرمایا ہے، اس طرح کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں،جن میں قیامت سے پہلے ہونے والے بعض اہم واقعات، اور قیامت اور اس کے بعد کی منزلوں کا بیان اس سے بھی زیادہ اجمال کے ساتھ، یا اس سے کچھ زیادہ تفصیل سے کیا گیا ہے، ان سب حدیثوں کے متعلق یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سینکڑوں، ہزاروں سال کی مدت میں ہونے والے واقعات کا بہت ہی مجمل بیان ان میں کیا گیا ہے، جو لوگ اس نکتہ کو ملحوظ رکھیں گے، ان شاء اللہ وہ ان حدیثوں کے بارے میں بہت سے شبہات اور وساوس سے محفوظ ہو جائیں گے۔ حدیث کے آخر میں ذکر کیا گیا ہے، کہ فرشتوں کو بتلایا جائے گا، کہ ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم والے ہیں، دنیا میں مؤمنین اور غیر مؤمنین کا جو تناسب ہے، اور جو اکثر زمانوں میں رہا ہے، اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اہل جہنم کی یہ تعداد ۱۰۰۰/۹۹۹ مستبعد نہیں معلوم ہوتی، تاہم بعض شارحین نے لکھا ہے، کہ ان ۹۹۹ فی ہزار میں سے بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہو گی، جو اگرچہ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے دوزخ کے اہل ہوں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کی مغفرت سے یا شافعین کی سفارش سے آخر میں وہ نجات پا جائیں گے۔ اَللَّهُمَّ اِنَّ مَغْفِرَتُكَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِنَا وَرَحْمَتَكَ اَرْجَى عِنْدَنَا مِنْ اَعْمَالِنَا۔
Top