معارف الحدیث - کتاب الایمان - حدیث نمبر 76
عَنْ جَابِرِ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِينَ تُوُفِّيَ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ، سَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَبَّحْنَا طَوِيلًا، ثُمَّ كَبَّرَ فَكَبَّرْنَا، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ سَبَّحْتَ؟ ثُمَّ كَبَّرْتَ؟ قَالَ: «لَقَدْ تَضَايَقَ عَلَى هَذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتَّى فَرَّجَهُ اللَّهُ عَنْهُ» (رواه احمد)
عالم برزخ (عالمِ قبر)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ جب (مشہور انصاری صحابی) سعد بن معاذ کی وفات ہوئی تو ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اُن کے جنازے پر گئے، پھر جب رسول اللہ ﷺ نے نمازِ جنازہ پڑھائی، اور ان کو قبر میں اتار کر جب قبر برابر کر دی گئی، تو رسول اللہ ﷺ نے سبحان اللہ، سبحان اللہ کہا (آپ کو دیکھ کر آپ کی اتباع میں) ہم بھی دیر تک سبحان اللہ، سبحان اللہ کہتے رہے، پھر آپ نے اللہ اکبر، اللہ اکبر کہنا شروع کیا، تو ہم بھی آپ کے اتباع میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کہنے لگے۔ پھر آپ سے پوچھا گیا کہ: "یا رسول اللہ! اس وقت آپ کی اس تسبیح اور تکبیر کا کیا خاص سبب تھا؟ "آپ نے فرمایا کہ: "اللہ کے اس نیک بندے پر اس کی قبر تنگ ہوئی تھی (جس سے اس کو تکلیف تھی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تنگی کی اس کیفیت کو دور فرما کر کشادگی پیدا فرما دی، اور اس کی تکلیف دور کر دی۔ (مسند احمد)

تشریح
یہ سعد بن معاذ انصاریؓ رسول اللہ ﷺ کے مشہور اور ممتاز اصحاب کرام میں سے تھے، غزوہ بدر کی شرکت کی فضیلت اور سعادت بھی نہیں حاصل تھی، ۵ ھ ؁ میں ان کا وصال ہوا، اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا: "ستر ہزار فرشتوں نے ان کے جنازے میں شرکت کی، اور آسمان کے دروازے ان کے لئے کھولے گئے۔ باوجود اس کے قبر کی تنگی کی تکلیف سے ان کو بھی واسطہ پڑا (اگرچہ فوراً ہی وہ اٹھا لی گئی)۔ اس سے ہم جیسوں کے لیے بڑا انتباہ اور بڑا سبق ہے۔ اَللّٰهُمَّ ارْحَمْنَا اَللّٰهُمَّ احْفَظْنَا!
Top